قومی صحت کی حفاظت اور فروغ ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے جو ہمارے ملک میں کماحقہ ادا نہیں کی جا رہی ہے، ڈاکٹر فیاض عالم

75 فیصد بچے دائیوں کے ذریعے گھروں میں پیدا ہو رہے ہیں، ایک ہزار میں سے 46 نومولود 29 دن میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں / یہ شرح افغانستان جیسے ملک سے بھی زیادہ ہے، ملک میں اور خاص طور پر دیہات میں دائیوں کی ٹریننگ کا کوئی نظام نہیں ہے، جنرل سیکرٹری دعا فائونڈیشن کراچی

منگل 12 نومبر 2019 00:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 نومبر2019ء) دعا فائونڈیشن ، کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم نے کہا ہے کہ قومی صحت کی حفاظت اور فروغ ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے جو ہمارے ملک میں کماحقہ ادا نہیں کی جا رہی ہے، 75 فیصد بچے دائیوں کے ذریعے گھروں میں پیدا ہو رہے ہیں، ایک ہزار میں سے 46 نومولود 29 دن میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، یہ شرح افغانستان جیسے ملک سے بھی زیادہ ہے، ملک میں اور خاص طور پر دیہات میں دائیوں کی ٹریننگ کا کوئی نظام نہیں ہے۔

وہ بطور مہمان مقرر ماہر قلب ڈاکٹر ابوبکر شیخ کی صدارت میں ’’مسائل صحت عامہ، تشویشناک صورتحال اور قومی تقاضے‘‘ کے موضوع پر شوریٰ ہمدرد کراچی کے اجلاس سے ہمدرد کارپوریٹ آفس، کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ مسائل صحت کے حل کے لیے ضروری ہے کہ محکمہ صحت اور اسپتالوں میں سیاسی نہیں بلکہ صرف میرٹ کی بنیاد پر تقرر کیا جائے۔

نااہل افراد کی بھرتی سے صحت کے شعبے میں انسانی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں تو ملیں گی لیکن علاج معالجے کی سہولتوں کے حوالے سے وہاں کچھ نہیں ملے گا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایسے ہسپتالوں کو چلانے کے لیے انہیں اچھی شہرت کی حامل این جی اوز کے حوالے کیا جائے، جہاں ایسا کیا گیا وہاں ہسپتال اچھی طرح چل رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام این جی اوز کو بلائیں اور انہیں مل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 80/80 گز کے گھروں میں نرسنگ ہوم کھل گئے ہیں، نرسنگ کے شعبے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک ہزار میں 78 خواتین زچگی کے دوران جاںبحق ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ سرکاری اور سماجی شعبے مل کر اور مسائل صحت حل کرنے اور بیداری پھیلانے کے لیے کام کریں، تھیلیسمیا کی بیماری محض آگاہی نہ ہونے کے سبب ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حضرات سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرنے کے بجائے مریضوں کو اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر بلاتے ہیں، یہ اخلاقی معاملہ ہے جس پر انہیں توجہ دینی چاہیے۔ بریگیڈیر (ر) ڈاکٹر ریاض الحق نے کہا کہ یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ صحت مند قومیں ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتیں ہیں لیکن ہمیں صحت و تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں، یہ دونوں شعبے بڑے دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم جب تک صحت عامہ پر توجہ نہیں دیں گے، لوگوں کو صحت مند ماحول مہیا نہیں کریں گے اس وقت تک مسئلہٴ صحت حل نہیں ہو سکتا۔ صدر مجلس ڈاکٹر ابوبکر شیخ نے کہا کہ صحت عامہ کا قیام سیاسی وِل کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے حکومت مسئلہٴ صحت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل ڈینگی بخار نے ہماری پوری توجہ مبذول کرالی ہے حالانکہ مکمل فیومیگیشن، گڈگورننس اور اچھے انتظامات سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت کا مسئلہ اتنا اہم ترین ہے کہ قوموں کا عروج و زوال ان کے افراد کی صحت سے مشروط ہے۔ ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد نے کہا کہ قومی صحت ہی قوموں کی اجتماعی ترقی و کامیابی کی ضامن ہے۔ اس لیے نئی نسل کے ذہنوں میں شروع سے ہی شعورِ صحت اجاگر کرنے اور صحت کی اہمیت کو جاگزیں کرنے کے لیے ’’ہیلتھ سائنس‘‘ کے مضمون کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جائے۔

مسز مسرت اکرم نے کہا کہ بچوں کو بھی انٹی بائیوٹک ادویہ دے دی جاتی ہیں جو بہت غلط ہے، لہٰذا ایسے معا لجین کو بھی آگاہی کی ضرورت ہے جو انٹی بائیوٹک کا بے دریغ استعمال کراتے ہیں۔ یہ زیادہ تر غیر مستند معا لجین ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہا کہ ہمارا ملک نومولود کے لیے بہت خطرناک ملک ہے کہ ان کی شرح اموات 1000 میں 62 ہے۔ 45 فیصد بچے کمزور جسم و ذہن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، پولیو جیسے مرض کو ہم شکست نہیں دے سکے، ڈینگی پھیل رہا ہے۔

اب تک 34 ہزار افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں، ملک میں کتے کے کاٹنے کی دوائیں نہیں ہیں، خواتین میں عام طور پر خون کی کمی پائی جاتی ہے، جو کم غذا ملنے اور بچوں کی بہتات کے سبب ہے، بچوں کی پیدائش کے دوران وقفہ نہیں رکھا جاتا۔ لہٰذا بڑے پیمانے پر شعورِ صحت بیدار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہمدرد کے ڈائریکٹر پروگرامز اینڈ پبلی کیشنز سلیم مغل نے کہا کہ مسائل صحت حل نہ ہونے کی بڑی وجوہات میں کرپشن اور تعلیم کی کمی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہٴ صحت کو سرکاری اور نجی شعبوں کے تعاون سے ہی حل کیا جا سکتا ہے، نجی شعبے کے حوالے سے صحت کے میدان میں ہمدرد کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ سعدیہ راشد نے بجا فرمایا ہے کہ شعورِ صحت کو اوائل عمر سے ہی بچوں کے ذہن میں راسخ کیا جائے۔ ہم رسالہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے ذریعے صحت اور حفظان صحت کے اصول بچوں کو بتا رہے ہیں۔

اجلاس نے متفقہ قرارداد تعزیت کے ذریعے شوریٰ ہمدرد پشاور کے اسپیکر ڈاکٹر صلاح الدین ، ہمدرد کے منیجر پبلک ریلیشنز حیات محمد بھٹی کے صاحبزادے سہیل محمد بھٹی، پروفیسر ہارون الرشید اور بیگم غزالہ ہاشمی کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی اور متعلقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں