ْحکومتی غیرحکیمانہ روِش کی وجہ سے گندم کا کاشتکار بدترین بلیک میلنگ کا شکار ہے،لیاقت بلوچ

ْ کاشتکار کو 3900 روپے فی من قیمت نہیں مِل رہی،حکومت گندم خریداری سے ہاتھ کھینچ چکی ہے،طاب

جمعہ 26 اپریل 2024 19:35

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اپریل2024ء) نائب امیر جماعت اسلامی، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ حکومتی غیرحکیمانہ روِش کی وجہ سے گندم کا کاشتکار بدترین بلیک میلنگ کا شکار ہے، کاشتکار کو 3900 روپے فی من قیمت نہیں مِل رہی،حکومت گندم خریداری سے ہاتھ کھینچ چکی ہے، جس کی وجہ سے باردانہ نہیں مِل رہا اور پرائیویٹ سیکٹر اونے پونے داموں گندم خرید رہا ہے۔

انہوں نے ملتان میں پی ٹی آئی کے ایم این اے خواجہ شیراز کی استقبالیہ تقریب اور لاہور سے پی ٹی آئی کے رہنما عثمان حمزہ اعوان کے عشائیہ پروگرام میں شرکت اور لاہور میں سیاسی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کاشت کار نے محنت کی، اللہ کی رحمت سے بمپر کراپ ہوئی۔ یہ بات حکوت کو پہلے سے پتہ تھی کہ امسال ملک میں گندم کی بمپر کراپ ہوگی، اس کے باوجود گزشتہ نگراں حکومت کے دور میں باہر سے لاکھوں ٹن اضافی گندم منگواکر ایک طرف قیمتی زرِمبادلہ ضائع کیا گیا تو دوسری طرف حکومتی غلط پالیسی کے ذریعے زراعت کو تباہ اور کاشتکار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر کاشت کار سے سرکاری ریٹ پر گندم خرید کریں اور کاشت کار کو تباہی سے بچایا جائے۔لیاقت بلوچ نے نہالہ، مناواں کے سیاسی عمائدین اور ملی یکجہتی کونسل کے وفد سے ملاقات میں کہا کہ موجودہ حالات میں عالمِ اسلام اور مِلتِ اسلامیہ کا کوئی بااعتماد دوست نہیں۔ تمام عالمی قوتیں اپنے مفادات کی محافظ ہیں، اُمت کا اتحاد اور عالمِ اسلام کی نظریاتی، اقتصادی، تکنیکی، تعلیمی اور دفاعی محاذ پر ہم آہنگی اور اتحاد ہی مسائل کا حل ہے۔

امریکی مداخلت کی بندش کے لیے پوری قوم کو مزاحمت کے لیے تیار کیا جائے۔ افغانستان، ایران اور چین سے خطہ میں پائیدار امن کے لیے مثالی عملی تعلقات پاکستان کے لیے ناگزیر ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیریوں کو حقِ خودارادیت کے حصول تک بھارت سے تجارتی، ثقافتی تعلقات قوم کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا زبانی کلامی نہیں مضبوط اور عملی اقدامات کا مؤقف قومی مطالبہ ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے پروٹوکول کے حصول سے انکار کرکے بہت اچھا اقدام کیا ہے لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی اداروں اور تمام حکومتی افسرانِ بالا و عہدیداران کے پروٹوکول، دہشت گردی سے عوام کو بچایا جائے۔ سپریم کورٹ آئین، قانون اور ضابطوں پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے ہر قسم کے ناجائز اور تکبر کے اظہار کے لیے اضافی پروٹوکول پر پابندیاں عائد کرے اور تمام سرکاری، حکومتی عہدیداران کو آئین و قانون کا پابند بنایا جائے۔ پروٹوکول پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مصروفیات اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ کا باعث بن گئی ہیں۔ قانون کی عملداری، قانون سب کے لیے برابر کا اصول ہی معاشرے میں سماجی استحکام پیدا کرسکتا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں