عالمی سطح پر خواتین کے بچے پیدا کرنے کی اوسط تعداد میں زبردست کمی سامنے آئی ہے‘ رپورٹ

1950 میں خواتین اپنی زندگی میں اوسطاً4.7 بچے پیدا کرتی تھیں ،گزشتہ سال یہ شرح 2.4 تک گر گئی

ہفتہ 10 نومبر 2018 21:35

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 نومبر2018ء) محققین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر خواتین کے بچے پیدا کرنے کی اوسط تعداد میں زبردست کمی سامنے آئی ہے۔تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے نصف ممالک میں ایک بے بی بسٹ آ رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی آبادی برقرار رکھنے کے لیے درکار بچے پیدا نہیں کر رہے۔بی بی سی کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ نتائج حیران کن تھے اور ان کے مطابق معاشرے پر پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے زیادہ دادے دادیوں اور نانے نانیوں کی وجہ سے سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

لانسٹ جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں 1950 سے 2017 تک ہر ملک کے اعداد و شمار اور رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔1950 میں خواتین اپنی زندگی میں اوسطاً4.7 بچے پیدا کرتی تھیں گزشتہ سال یہ شرح 2.4 تک گر گئی۔

(جاری ہے)

مگر ان اعداد و شمار میں مختلف ممالک کے درمیان فرق واضح نہیں ہوتا۔مغربی افریقہ کے ملک نائجر میں یہ شرح 7.1 ہے جبکہ سائیپرس یا قبرص میں یہ شرح ایک بچہ ہے۔

برطانیہ میں یہ شرح 1.7 ہے جو کہ بہت سے مغربی ممالک سے مماثلت رکھتا ہے۔جب بھی کسی ملک میں بچے پیدا کرنے کی شرح 2.1 سے کم ہونے لگے گی تو ملک کی کل آبادی آخرکار کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ جن ممالک میں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہو وہاں ولادت کی شرح اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے۔اس تحقیق کے آغاز پر 1950 میں کوئی بھی ملک اس شرح سے کم پچے پیدا نہیں کر رہا تھا۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوئیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر کرسٹوفر مرے کا کہنا ہے کہ ہم ایک انتہائی اہم موڑ پر ہیں جہاں نصف ممالک میں بچے پیدا کرنے کی شرح انتہائی کم ہے اور اگر اس کا کچھ نہیں کیا جاتا تو ان ممالک میں آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔معاشی طور پر قدرے زیادہ بہتر ممالک جیسے کہ یورپی ممالک، امریکہ، جنوبی کوریا، اور آسٹریلیا میں بچے پیدا کرنے کی شرح کم ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان ممالک کی آبادی کم ہو رہی ہے کیونکہ آبادی کی تعداد کا تعلق بچے پیدا کرنے کی شرح، اموات کی شرح، اور ہجرت کے تناسب سے ہے۔اور بچے پیدا کرنے کی شرح کے اثرات سامنے آنے میں کئی نسلیں لگ سکتی ہیں۔پروفیسر مرے کہتے ہیں ہم جلد اس مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں معاشرے گرتی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہوں گے۔دنیا میں آدھے ممالک ابھی بھی اتنے بچے پیدا کر رہے ہیں کہ ان کی آبادیاں بڑھتی رہیں مگر جیسے جیسے ترقی اور معاشی صورتحال میں بہتری آئے گی تو وہاں بھی یہی مسائل آ سکتے ہیں۔

آکسفورڈ انسٹیٹیوٹ آف پوپولیشن ایجنگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جارج لیسن کہتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ لوگوں کی عمروں میں اضافہ بری بات ہو مگر پورے معاشرے کو ڈیموگرافک (آبادیاتی)تبدیلی کے حوالے سے اپنی روز مرہ زندگی میں بھی تبدیلیاں لانی پڑیں گیں۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیموگرافی ہماری زندگیوں کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سڑکوں پر لوگ، ٹریفک، مکانات، سب کچھ آبادیات سے منسلک ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم جو بھی پلانگ کرتے ہیں، وہ نہ صرف آبادی کی تعداد بلکہ آبادی میں عمروں کے تناسب سے کی جاتی ہے۔ اور اب وہ بدل رہا ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ کہاں تک جائے گا۔ایک تبدیلی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاید لوگوں کو ان کے ریٹائرمنٹ کی عمر چند سال بڑھا دینی چاہیے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں