محمود علی مرحوم نے مشرقی پاکستان کی جبراً علیحدگی کو کبھی قبول نہ کیا، ایوان صنعت وتجارت اسلام آباد

سقوط ڈھاکہ کے بعد محمودعلی کی توانا آواز نے قوم کے حوصلوں کو بڑھایا۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کیلئے وقف کر رکھی تھی اوروہ دو قومی نظریے کو پاکستان کی بقاء کیلئے لازم قرار دیتے تھے، مقررین کی بارہویں برسی کے موقع پر خصوصی نشست سے خطاب

ہفتہ 17 نومبر 2018 20:36

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 نومبر2018ء) تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن محمود علی مرحوم نے مشرقی پاکستان کی جبراً علیحدگی کو کبھی قبول نہ کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی پاکستان کے مشرقی و مغربی بازوئوں کو از سر نو متحد کرنے کی جدوجہد میں بسر کر دی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد محمودعلی کی توانا آواز نے قوم کے حوصلوں کو بڑھایا۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کیلئے وقف کر رکھی تھی اوروہ دو قومی نظریے کو پاکستان کی بقاء کیلئے لازم قرار دیتے تھے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان صنعت وتجارت G-8/1، اسلام آباد میں تحریک پاکستان کے رہنما‘ تحریک تکمیل پاکستان کے بانی صدر اور سابق وفاقی وزیر حکومت پاکستان محمود علی مرحوم کی بارہویں برسی کے موقع پرمنعقدہ خصوصی نشست کے دوران کیا ۔

(جاری ہے)

اس نشست کا اہتمام نظریہٴ پاکستان فورم اسلام آباد، راولپنڈی نے کیا تھا ۔ نشست کی صدارت تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن سرتاج عزیز نے کی۔

اس موقع پر سینیٹ آف پاکستان کے رکن لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم، چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان ڈاکٹر محمد صلاح الدین مینگل، سیکرٹری نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید، صدر ایوان صنعت وتجارت اسلام آباد احمد حسن مغل،صدر نظریہ پاکستان فورم راولپنڈی پروفیسر نعیم قاسم، نائب صدر نظریہٴ پاکستان فورم اسلام آباد انجینئر محمد عارف شیخ، سیکرٹری جنرل ظفر بختاوری، صدر نظریہ پاکستان فورم چکوال راجہ مجاہد افسر،سینئر صحافی جاوید صدیق اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کثیر تعداد میں موجود تھے۔

نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک‘نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔سرتاج عزیز نے کہا کہ محمو علی مرحوم ایک عظیم وفادار اور سچے پاکستانی تھے۔ مرحوم زندگی بھر دوقومی نظریہ کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کی جبری علیحدگی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔وہ آسام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے، انہوں نے سلہٹ کے ریفرنڈم میں بھی متحرک کردار ادا کیا۔

دوقومی نظریہ کی روح کا ان کو احساس تھا۔میری محمود علی مرحوم سے بڑی دوستی رہی ، وہ اپنے نظریات پر ڈٹ جانے والے انسان تھے۔ وہ مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہے اور ہمیشہ جذبہٴ پاکستانیت کو فروغ دیا۔ہمیں ان کی پیروی میں ملکی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔حکومت پاکستان محمود علی کی یاد میں ایک یادگاری ٹکٹ اور اسلام آباد کی ایک شاہراہ کا نام ان سے منسوب کرے۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ محمود علی 1919ء میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانہ سے تھا۔ محمود علی مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے بھی رکن ہے۔ وہ ایک مدبر سیاستدان اور اول وآخر پاکستانی تھے۔ محمو د علی ایک نظریاتی انسان اور متحرک رہنما تھے۔ انہوں نے اپنے نظریات پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور ان پر قائم رہے۔

پاکستانیت ان کے رگ وپے میں رچی بسی تھی۔صلاح الدین مینگل نے کہا کہ اپنے اسلاف کو یاد رکھنے والی زندہ قومیں کہلاتی ہیں۔ محمود علی مرحوم ایک متحرک رہنما تھے ، ان کے افکار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ محمودعلی مرحوم پاکستان کے عاشق تھے اور انہوں نے ملک کی تعمیر وترقی کیلئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ احمد حسن مغل نے کہا کہ آج ہمارے ہاں تاریخ کی کتابوں میں سے بیشتر باتوں کو نکال دیا گیا ہے۔

نئی نسل اپنے اسلاف کے شاندار کارناموں اور تاریخ کا مطالعہ کرے ۔ محمود علی کی حیات وخدمات کا تذکرہ نئی نسل میں حب الوطنی کے جذبات کو پروان چڑھائے گا۔ انہوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کیلئے قربان کر دیا ۔ ظفر بختاوری نے کہا کہ محمود علی مرحوم کے دل میں اس ارضِ پاک کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ دوقومی نظریے کے بہت بڑے علمبردار اور پاکستان کی خاطر جان تک قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔

ہمیں ایسی عظیم شخصیات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔پاکستان کے دولخت ہونے پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ بحیرہ عرب میں ڈوب دیا ہے لیکن محمود علی نے اندرگااندھی کی بات کو غلط ثابت کر دکھایا اور دوقومی نظریہ کو زندہ رکھا۔ محمود علی نے زندگی بھر نظریہٴ پاکستان کا علم بلند کیے رکھا اور انہوں نے نظریہٴ پاکستان کی ترویج و اشاعت کیلئے دن رات کام کیا ۔

انہوں نے سلہٹ ریفرنڈم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہٴ پاکستان کے شعور کو عوام میں بیدار کیا جائے۔شاہد رشید نے کہا کہ محمود علی مرحوم متحدہ پاکستان کے سب سے بڑے داعی اور ایک عظیم محب وطن سیاسی رہنما تھے۔وہ قائداعظمؒ کے سچے پیروکار اور قائداعظمؒ کے فرمودات پر مکمل عمل کرتے تھے۔ محمود علی مرحوم کے جذبہ حب الوطنی کو اجاگر کرنے اور ان کی یاد منانے کیلئے ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ۔

سال2019ء میں محمود علی کی ولادت کے سو سال پورے ہونے پر صد سالہ تقریبات منائی جائیں گی ۔ اس دوران مرحوم کی کتب کو دوبارہ شائع کیا جائے گا اور ان کے افکار اور حیات و خدمات کو اُجاگر کرنے کیلئے سیمینارز اور فکری نشستیں منعقد ہوں گی۔ حکومت اس موقع پر ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کرے۔پروفیسر نعیم قاسم نے کہا کہ یہ ملک ایک نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔

ہندو اور مسلمان الگ الگ قوم ہیں اور یہی دوقومی نظریہ ہے۔ محمو دعلی نے ہمیشہ پاکستانیت کو فروغ دیا،آپ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اسکے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی آپ پاکستانی ہی رہے اور اپنے آبائی وطن نہ گئے۔ محمود علی نے سادگی کا درس دیا۔ جاوید صدیق نے کہا کہ محمو دعلی نے قائداعظمؒ کے سپاہی کی حیثیت میں تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

وہ سچے اور پکے پاکستانی تھے ، وہ ایسا پاکستان دیکھنے چاہتے تھے جس کا خواب علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا اور جس کے خاکے میں قائداعظمؒ نے رنگ بھرا تھا۔راجہ مجاہد افسر نے کہا کہ محمودعلی ایک فرد نہیں بلکہ تحریک تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگی ایک مقصد اور نظریے کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ان کو پاکستان اور نظریہٴ پاکستان سے بے حد لگائو اور پیار تھا۔

جو قومیں اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی ہیں۔ وہ بحیثیت وزیر حکومت سے زیادہ تنخواہ نہیں لیتے تھے لیکن جو مل جاتا اسے بھی فلاحی کاموں میں خرچ کر دیا کرتے تھے۔میرا مطالبہ ہے کہ اسلام آباد کی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔میاں اکرم فرید نے کہا قائداعظمؒ اور محمود علی مرحوم کی امانت اس ملک کو ہمیں جس طرح سنبھالنا چاہئے تھا ویسا ہم نہیں کرسکے جس پر ہم شرمندہ ہیں۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی بہت بڑا دکھ تھا ، محمود علی مشرقی پاکستان کے رہائشی تھے لیکن انہوں نے بنگلہ دیش میں رہنا گوارا نہیں کیا اور اپنا گھر چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ نئی نسل کو تحریک پاکستان ، دوقومی نظریہ اور قیام پاکستان کے اسباب ومقاصد کے ساتھ ساتھ مشاہیر تحریک آزادی کے افکارونظریات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ نشست کے آخر میں محمود علی کی روح کے بلندئ درجات اور ملکی تعمیر و ترقی کے لیے دعا کروائی ۔ بعد ازاں تقریب کے شرکاء نے مرحوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری دی‘ پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور فاتحہ خوانی کی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں