تحریک انصاف اپنے وعدے کے مطابق جنوبی پنجاب کو صوبہ نہ بنا سکی

عارضی حل سب سیکرٹریٹ بھی تنازعات کا شکار ہو گیا سب سیکرٹریٹ ملتان ہوگا یانہیں ، بہاولپور پر بڑے سیاسی خاندان مزاری، دریشک، لغاری، بزدار، خاکوانی، شاہانی، قریشی، مخدوم اور جٹ آرائیں آمنے سامنے آگئے ،

جمعرات 29 نومبر 2018 20:15

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 نومبر2018ء) تحریک انصاف اپنے وعدے کے مطابق پہلے 100 روز مکمل ہونے پر جنوبی پنجاب کو صوبہ نہ بنا سکی جبکہ عارضی حل سب سیکرٹریٹ بھی تنازعات کا شکار ہو گیا ہے۔ سب سیکرٹریٹ ملتان ہوگا یانہیں ، بہاولپور پر بڑے سیاسی خاندان مزاری، دریشک، لغاری، بزدار، خاکوانی، شاہانی، قریشی، مخدوم اور جٹ آرائیں آمنے سامنے آگئے ، مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرنے والے 42 اراکین اسمبلی پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنماء بھی عوام کے دباؤ کے پیش نظر حکومت سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرنے لگے۔

جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے حوالے سے تاحال صرف ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو ابھی تک اپنی سفارشات ہی تیار نہ کرسکی۔

(جاری ہے)

12 رکنی ایگزیکٹو کمیٹی میں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری،سمیع اللہ چودھری سردار شہاب الدین،سردار جاوید اختر،نواب منصور احمد خاں، انور احمد خاں، جاوید اقبال شامل جبکہ اس کے سربراہ ق لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بھائی طاہر بشیر چیمہ ہیں۔

حکومت کے قیام کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے 20 اکتوبر کو جنوبی پنچاب کے عارضی حل کیلئے سب سیکرٹریٹ کے قیام کا فیصلہ کیا اور جہانگیر ترین نے ملتان کو اس کیلئے موزوں قرار دیا جس پر بہاولپور سے تعلق رکھنے والے جٹ اور آرائیں اراکین نے سب سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنانے کا مطالبہ کردیا ، دوسری جانب ڈیرہ غازی خان،ملتان، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والوں نے ملتان کو سب سیکرٹریٹ بنانے کا مطالبہ کیا ہے ، ان بڑے سیاسی خاندانوں کی رسہ کشی میں تحریک انصاف کیلئے سب سیکرٹریٹ کا قیام بھی مسئلہ بن گیا ہے جبکہ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کھل کر اس کی مخالفت کررہی ہے اور وہ بہاولپور کو صوبہ بنانے کا مطالبہ کررہی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو جہاں سب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے وہیں اسے جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے جو اس کے پاس نہیں، آئین کے آرٹیکل 342 کے تحت نئے صوبے کے قیام کیلئے متعلقہ صوبے ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے قراردادیں پاس ہونا ضروری ہیں جس کے بعد نئے صوبے کے قیام کیلئے کمیشن تشکیل دیا جاتاہے جو نئے صوبے کے وسائل، وفاقی محصولات میں حصہ، پانی کی صوبائی تقسیم سمیت دیگر معاملات کا تعین کرتا ہے۔۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں