پشاور ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو بی آر ٹی منصوبے میں تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا

عدالت کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں ایف آئی اے کو سابق وزیراعلی پرویز خٹک، سابق چیف سیکرٹری کے پی اعظم خان ، وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ سمیت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈی جیز کے درمیان تعلق سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم بھی دیدیا چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا،ایف آئی اے کو45 دن کے اندر بی آر ٹی کی انکوئری کر کے رپورٹ طلب کر لی

جمعرات 5 دسمبر 2019 23:53

․پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2019ء) پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو بی آر ٹی منصوبے میں تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا۔عدالت کی جانب سے جاری تفصیلی فیصلے میں ایف آئی اے کو سابق وزیراعلی پرویز خٹک، سابق چیف سیکرٹری کے پی اعظم خان ، وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ سمیت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈی جیز کے درمیان تعلق سے متعلق تحقیقات کرنے کا حکم بھی دیدیا۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ایف آئی اے کو45 دن کے اندر بی آر ٹی کی انکوئری کر کے رپورٹ طلب کر لی۔ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں بی آر ٹی منصوبے سے متعلق 20 سے ذائد نکات پر ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے جس میں ٹرانس پشاور کے سی ای او کو عہدے سے ہٹانے،بلیک لسٹ کمپنی کو ٹھیکہ دینے،منصوبے کے لیے قرضہ لینے کی ضرورت سمیت دیگر معاملات پر تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے فیصلے میں واضح کیا ہے منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ منصوبے کے لیے ناقص منصوبہ بندی ہے، ایف آئی اے تحقیقات کرے کہ لاہور میں 65 بسیں چلائی جاتی ہیں پشاور میں 220 بسیں چلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جو رقم ایک منصوبے کے لیے حاصل کی گئی اس سے صوبے کی حالت بدل سکتی تھی۔ اس وقت منصوبے کا ایک کلومیٹر راستہ دو ارب 42 کروڑ 70 لاکھ روپے میں پڑتا ہے جو کہ بہت ذیادہ ہے، عدالت نے ایف آئی اے کو 45 روز میں تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیدیا۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق ٹرانس پشاور کے سی ای او درانی کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا پی ٹی آئی حکومت نے ویژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا، مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دیا گیا، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی،بی آر ٹی فی کیلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو کہ بہت زیادہ ہے، ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا، منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3 پراجیکٹ ڈائریکٹرز کو ہٹایا گیا، منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ سٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں، اے سی ایس اور وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری کو بھی ادائیگی کی گئی، ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا، منصوبہ پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا، سابق وزیر اعلی پرویز خٹک ، ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا ۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں