, آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، بلوچستان لیبرفیڈریشن اور بلوچستان ورکرز فیڈریشن کے زیراہتمام یوم مزدور جلسہ کا انعقاد

بدھ 1 مئی 2024 21:45

%2کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2024ء) آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، بلوچستان لیبرفیڈریشن اور بلوچستان ورکرز فیڈریشن کے زیراہتمام یوم مزدور کی مناسبت سے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا گیا۔جلسے میں مزدوررہنمائوں سمیت ہزاروں محنت کشوں نے شرکت کی اور نو منتخب ایم پی اے مولوی ہدایت الرحمن نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔

جلسے سے محمد رمضان اچکزئی، مولوی ہدایت الرحمن، خان زمان، حاجی بشیر احمد، محمدقاسم کاکڑ، حسن بلوچ،عبدالباقی لہڑی، عبدالعزیز شاہوانی،عابد بٹ،محمد یار علیزئی، محمد رفیق لہڑی، منظور لالا، محمد عمر جتک، دین محمد محمد حسنی، حاجی عزیز اللہ، نقیب اللہ کاکڑ اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے 1886ء کے جانثاروں کو خراج تحسین پیش کیا اورکہا کہ یکم مئی1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے بہتر حالات کار، مناسب اوقات اور منصفانہ معاوضے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال کی جو کہ پہلے پر امن تھی لیکن سرمایہ دار انہ نظام کے پیروکاروں نے نہتے مزدوروں کے پر امن مظاہرے پر سرعام گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں متعدد مزدور جاںبحق اور زخمی ہوئے۔

(جاری ہے)

اس واقعے نے پوری دنیا میں مزدورتحریکوں کو تقویت بخشی جس کے بعدپوری دنیامیں یکم مئی یومِ مزدورکے طور پر منایا جانے لگا۔مقررین نے کہا کہ یکم مئی مزدوروں کے اکٹھے ہونے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا عالمی دن ہے اوراس دن کی مناسبت سے پاکستان میں بھی مزدورتنظیمیں مزدور تحریک کو مزید مضبوط بنانے اوراپنے حقوق کی جدوجہد کیلئے جلسے و جلوس کا اہتمام کرتی ہیں۔

مقررین نے کہا کہ آج کے دن کوئٹہ سمیت صوبہ بھر کے تمام بڑے شہروں میں منظم طور پر جلسے منعقد کیے جارہے ہیں اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔مقررین نے کہا کہ آج ملک کا محنت کش طبقہ 1886ء کے مزدوروں سے بد تر حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے ایک طرف ملک کا 5 فیصد مراعات یافتہ طبقہ جس میں سرمایہ دار، جاگیردار، صنعتکار، سول و فوجی بیوروکریسی، خان، وڈیرے، چوہدری شامل ہیں جنہیں دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہیں اور وہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دوسری طرف 95 فیصد غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقہ جو بھوک، افلاس، غربت، جہالت، پسماندگی، لاچاری، بیماری، بدامنی و بدعنوانی ، اقرباء پروری، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم و صحت کے فقدان، لوٹ مار، کرپشن و کمیشن اور دولت کے غیرمنصفانہ تقسیم عمل جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہوکر خود کشیاں اور خودسوزیاں کرنے پر مجبور ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

مقررین نے کہا کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں محنت کش طبقے کا کردار اہم رہا ہے جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اپنا خون پسینہ بہاتا ہے آج یہ اکثریت طبقہ مایوسی کا شکار ہے محنت کش طبقہ ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن پالیسی سازوں نے 76سالوں میں کوئی سبق نہیں سیکھا اور حقیقی مزدور کنفیڈریشنز، فیڈریشن اورٹریڈیونینز کے نمائندوں کو اسمبلیوں اور سینیٹ میں نمائندگی نہ دے کر جمہوریت اور آئین کی بالادستی اور اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔

مقررین نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے تمام بنیادی انسانی حقوق پر 100فیصدعملدرآمد کروائے پاکستان کا تاریخی پس منظر دیکھا جائے تو اقتدار فوجی آمریتوں اوربکھری ہوئی جمہوری حکومتوں کے پاس رہا ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقہ ظلم و ناانصافی کا شکار رہا ہے۔مقررین نے کہا کہ آج بھی ملک کے تمام اختیار حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں ہیںیہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان میں لیبر قوانین کا مشاہدہ کیا جائے تو صنعتکاروں کو دیا گیا تحفظ نظرآتا ہے جبکہ مزدور طبقے کے حقوق پامال ہوتے ہوئے نظر آئیں گے آج فارمل اور اِن فارمل سیکٹرز سے منسلک کروڑوں مردوخواتین محنت کش کم از کم اجرت سے بھی محروم ہیں اورعدم مساوات کاشکار ہیں۔

مقررین نے کہا کہ حالت یہ ہے کہ سرکاری اورغیرسرکاری شعبوں کی ٹریڈیونینز کو دھمکیوں، جبری برطرفیوں، نجکاری کے نام پر برسرروزگار لوگوں کو بے روزگار کرنے، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ، بنیادی حقوق سے محرومی، پینشن،جدوجہد سے حاصل شدہ حقوق سے محرومی اور حق انجمن سازی سے انکار کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی ایک واضح مثال بلوچستان میں62 ٹریڈیونینز پر بلاجواز پابندی ہے حالانکہ آئین پاکستان تمام ملازمین و مزدوروں کو حق انجمن سازی کی آزادی دیتا ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا اورآج ہر جگہ مزدوروں کا استحصال کیا جارہا ہے اورمزدوروں کے معاشی قتل پر ملک کا ہر ادارہ خاموش ہے۔

مقررین نے کہا کہ محکمہ مائنز کی غفلت کی وجہ سے کوئلہ کانوں میں آئے روز حادثات رونماء ہورہے ہیں جس میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، کوئلہ کانوں کے مزدوروں اورعام شہریوںکو اغواء کیا جارہاہے، نہتے مزدوروں اورعام شہریوں کا قتل عام ہورہا ہے اورامن و امان کی صورتحال تباہ ہوچکی ہے ان حالات نے مزدوروں کو مزید معاشی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

مقررین نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافے نے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے پر مہنگائی کا ایٹم بم گرادیا ہے بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تمام اشیاء کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں اس لئے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لے کر عوام کو ریلیف فراہم کیاجائے اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر غریب عوام کوزندہ درگورکرنے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرکے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے اور اداروں میں ہزاروں خالی آسامیوں پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں، کنٹریکٹ، ڈیلی ویجز، پارٹ ٹائم ملازمین کی سروسز کو ریگولراور ایمپلائز سنز کوٹے پر فوت شدہ اورریٹائرڈ ملازمین کے بچوں کی فوری بھرتیاں کی جائیں۔

مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آنے والے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں حالیہ مہنگائی کے تناسب اورافراط زر کے مطابق اضافہ کیا جائے اور مزدور کی کم سے کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر مقرر کی جائے اور حکومت غریب عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنے کے بجائے سرمایہ داروںپر ٹیکس لگا کر عوام کو ریلیف فراہم کرے ملک کا سرمایہ دار طبقہ امیر سے امیر تر ہورہا ہے جبکہ غریب عوام پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے بھی قاصر ہے۔

مقررین نے کہا کہ کہ باری باری اقتدار پر مسلط قوتیں بھینس کے دودھ پر گزارا کرنے کے بجائے بھینس کاٹ کر کھانا چاہتی ہیں اگر واقعی ملک معاشی طور پر خسارے میں ہے تو ان مسلط قوتوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے غیرپیداواری اخراجات کم کرکے معیشت کو خسارے سے نکالیں لیکن مراعات یافتہ طبقہ طے کرچکا ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنا ہے اس لئے وہ ملک کے قومی اثاثوں کو مال غنیمت سمجھ کر زیادہ سے زیادہ حصہ چھیننے کی خواہش میں مگن ہے۔

مقررین نے کہا کہ ہمارے حکمران خطرناک سامراجی پالیسیوں کی طرف گامزن ہیںاورآئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر ملک کو قرضوں میں جکڑ رہے ہیں جس سے ملک کی معیشت مزید کمزور ہورہی ہے آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ پر سبسڈی کا خاتمہ، اداروں کی نجکاری، سرکاری ملازمین کی تعداد میں کمی، مفاد عامہ کے اداروں کی نیلامی اور عوام سے بنیادی حقوق چھننے جیسے خطرناک اقدامات کیے جارہے ہیں اب عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے ملک و قوم کے وسائل لوٹنے اور قرضے ہڑپ کرنے والے بد عنوان حکمرانوں کے اثاثوں کوضبط کرکے نیلام کیا جائے اورملک کی لوٹی ہوئی دولت ان سے لے کر 25 کروڑ عوام کو قرضے سے نجات دلائی جائے۔

جلسے میں متعدد قراردادیں پیش کی گئیں جس کی منظوری محنت کشوں نے ہاتھ اٹھا کر دی۔بعد ازاں میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار سے ایک عظیم الشان ریلی نکالی گئی جو انسکمب روڈاور منان چوک سے ہوتی ہوئی میزان چوک پر اختتام پزیر ہوئی۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں