فیفا فٹبال ورلڈ کپ میں پاکستانی گیند کا استعمال وہاں سبز پرچم کی کمی پوری کرنے کے ساتھ سپورٹس ڈپلومیسی کو بھی فروغ دے رہا ہے ،برازیلین سفیر

پیر 16 جون 2014 16:56

فیفا فٹبال ورلڈ کپ میں پاکستانی گیند کا استعمال وہاں سبز پرچم کی کمی پوری کرنے کے ساتھ سپورٹس ڈپلومیسی کو بھی فروغ دے رہا ہے ،برازیلین سفیر

سیالکوٹ ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16جون 2014ء ) فیفا فٹبال ورلڈکپ برازیل میں جاری ہے اور اس میں پاکستانی ساختہ گیند کا استعمال وہاں سبز پرچم کی کمی پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اسپورٹس ڈپلومیسی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔فیفا ورلڈکپ کے آغاز سے قبل برازیل کے پاکستان میں سفیر الفرڈو لیونی نے سیالکوٹ کا دورہ کیا جبکہ ایک حالیہ تقریب میں شرکت کے موقع پر انھوں نے اس کاروباری اور اسپورٹس ڈپلومیسی کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے پاکستان اور برازیل کے درمیان ایک تعلق قائم ہوگیا ہے۔

اب تک 4 کروڑ سے زائد گیندیں پاکستان سے برآمد کی جاچکی ہیں جن سے میں کچھ ورلڈکپ میچز کیلئے استعمال ہوں گی جبکہ باقی تربیتی سیشنز اوردنیا بھر میں مختلف مقابلوں میں پاکستان کی شان بڑھائیں گی۔

(جاری ہے)

برازوکا تیار کرنے والی کمپنی کے ایک عہدیدار کے مطابق یہ کاروبار کیلئے زبردست موقع ہے اور اب ہم یہی دعا کرسکتے ہیں کہ کوئی میچ ہارنے کے بعد اس کا الزام گیند پر عائد نہ کردے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے کوئی گیند کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیدے مگر 'ہم پراعتماد ہیں کہ ہماری یہ بال اعلیٰ معیار کی ہے، کیونکہ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنی مشینری کو جدید بنانے کیلئے بہت زیادہ سرمایہ لگایا ہے'۔'اس سے پہلے تمام گیندیں ہاتھوں سے تیار کی جاتی تھیں، مگر اب ایسا نہیں۔ اس وقت سیالکوٹ میں کام کرنے والی چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتیں سالانہ ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما کر دے رہی ہیں۔

'اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ جولائی کے اختتام میں جب برازیل میں ورلڈکپ کا جوش و خروش ٹھنڈا ہوجائے گا تو کچھ ایڈی داس گیندیں پاکستانی مارکیٹ میں بھی دستیاب ہوں گی، اگرچہ وہ سستی نہیں ہوں گی مگر وہ بہت خاص ضرور ہوں گی۔ان کے مطابق یہ بات قابل فخر ہے کہ 2014 فیفا ورلڈکپ کیلئے استعمال کی جانے والی گیندیں پاکستان میں تیار ہوئیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی کاروباری افراد کس حد تک مواقعوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

وقت اشاعت : 16/06/2014 - 16:56:03

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :