Episode 10 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 10 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

مال ِغنیمت
ہر شخص اپنی زندگی میں ملک الموت کے لئے مال غنیمت اکٹھا کرتا ہے جب انسان یہاں سے جاتا ہے تو ویسا ہی جاتا ہے جیسے آیا تھا کوئی اُس سے پوچھے دنیا میں کیا لایا تو کچھ نہیں تھا مگر لے کر کیا جا رہا ہے اُس کا جواب آئے گا لایا تو کچھ نہیں تھا مگر لے کر اپنی زندگی کا اعمال نامہ جا رہا ہو ں وہی جو کچھ میں نے دنیا میں کمایا ہے جو اکٹھا کیا تھا وہ تو دوسروں کا مال تھا اور اُس مال غنیمت کو ملک الموت نے میرے وارثوں میں تقسیم کر دیا ہے میں تو خالی ہاتھ ہوں مگر اِس سارے سامان کا میں جوابدہ ہوں جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں … !
انسان ساری زندگی حالات کے زیر اثر بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے ۔
انسان بھی عجیب ہے یقین کی موجودگی میں بے یقینی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ملک الموت صدا لگا رہا ہے اور انسان بہروں کی طرح اُسے دیکھ رہا ہے کئی بار اُس کے قریب سے گزرتا ہے اور انسان کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی وہ مال و دولت اکٹھا کرنے میں مگن ہے اُسے خبر ہی نہیں اُس کی موت کے بعد اُس کی اولاد کے درمیان یہ وجہ فساد ہو گی ۔

(جاری ہے)

مال غنیمت ہمیشہ رنجیدگی کا باعث بنتا ہے مگر انسان بنیادی طور پر حریص واقع ہوا ہے پیٹ بھر جاتا ہے مگر آنکھوں کی بھوک نہیں مٹتی ۔

پہلے مال اکٹھا کرتا ہے اور پھر خود ہی کہتا ہے اتنی تو ضرورت ہی نہ تھی صرف اور صرف کفن کی مگر یہ خبر اُس وقت نفس نشر کرتا ہے جب ملک الموت پیغام لے آتا ہے اٹھو اور میرے ساتھ چلو پھر حسرت بھری نظریں اپنے مال غنیمت پر ڈالتا ہے بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اُسے تقسیم کرنے سے قاصر ہوتا ہے … سوچتا ضرور ہے کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے یہ اکٹھا کیا تھا … !
انسان کے مرنے کے بعد جب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو طرح طرح کی رائے قائم کرتے ہیں اور مال غنیمت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں … اکثر کی یہ حتمی رائے ہوتی ہے کہ ” ساتھ کچھ نہیں لے جانا “ مگر پھر وہی لوگ مال غنیمت کی لوٹ مار میں شامل رہتے ہیں کوئی نہیں سوچتا ہم نے بھی ایسے ہی خالی ہاتھ دنیا سے جانا ہے مگر مرنے والے کے غم میں تیار کردہ طرح طرح کے کھانوں پر اِس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں جیسے یہ مال غنیمت ہے بھول جاتے ہیں اِن کے مرنے پر بھی یہی بندوبست ہو گا اِسی طرح لوگ تبصرہ فرمائیں گے … ملک الموت اِن کی اِن حرکات پر مسکراتا ہے کہ یہ میرے کار ہائے سے آگاہ نہیں حالانکہ میرا اور اِن کا ایک دن ٹاکرا ہو گا میں خالی ہاتھ انہیں لے جاؤں گا صرف کف افسوس اِس کے حصہ میں آئے گی ۔
کہتے ہیں مال غنیمت انسان کی زندگی کے بازار میں گراں نہیں مال غنیمت کے لالچ میں انسان مقصد کو بھول جاتا ہے پھر خدا کی آیت کا نزول ہوتا ہے ۔
###
میدان اور کھلاڑی
دنیا کے میدان میں ہر شخص ایک کھلاڑی ہے جو اپنی زندگی سے کھیلتا ہے اور خود ہی تماشائی ہے ۔ ہر شخص کے پاس وقت کم ہے مگر اُس کی خواہشات کا سفر طویل اور کٹھن ہے تھک جاتا ہے مگر جینے کا حوصلہ نہیں ہارتا ہے ۔
دریافت پر بتاتا ہے وہ ٹھیک اور ٹھاک ہے پتہ چلتا ہے وہ زندگی کی بازی ہار گیا ہے … ! مڑ کر دیکھو تو آپ کی نظروں کے سامنے بیشتر ہارے ہوئے کھلاڑی شہر خموشاں میں آرام و سکون سے سوئے ہوئے ہیں اور ہر ایک کی کارکردگی کا سرنامہ اُن کے سرہانے اطلاعاً لکھا ہوا ہے … فلاں ابن فلاں عرصہ حیات دنیا پیدائش سے وفات تک … کھلاڑی سے پوچھو تو خاموش … میدان دیکھو تو خالی وہاں کوئی دوسرا کھلاڑی کھڑا ہے ۔
زندگی کے کھیل کا مزہ لینا ہے تو صحیح وقت پر صحیح جگہ اور صحیح کھیل کا انتخاب نہایت لازم ہے ورنہ میدان تو کھلا ہے ہی مگر مزہ نہیں آئے گا وقت اور قوت دونوں ضائع نتیجہ صفر حساب مشکل … دنیا کا دروازہ بند اور آخرت والا دروازہ کھلا … وہاں نہ کھیل نہ کھلاڑی نہ میدان اک ہُو کا عالم اک خوفناک منظر … سارے زندگی کی ہاری ہوئی بازی کے کھلاڑی یک جاہ … بتاؤ ! یہ کھیل کوئی مذاق ہے یا حقیقت … !
دنیا کے میدان میں زندگی کی دوڑ کا لطف لینا ہو تو انسان کی نشست کہاں ہونی چاہئے شروعات پر یا وہاں جہاں دوڑ ختم ہونی ہے یا اعتدال میں یا وہاں بیٹھنا چاہئے جہاں سارے میدان سے لطف اندوز ہوا جائے … میرا خیال ہے مقام یقین پر بیٹھا جائے وہاں اطمینان ہو گا … جذبات میں ٹھہراؤ اور برداشت میں عدم ہو وہاں انسان آرام سے کھیل اور میدان دونوں سے لطف اندوز ہو گا …!
زندگی کی دوڑ گوشہ چشم سے شروع ہوتی ہے اور گوشہ چشم میں ہی ختم ہو جاتی ہے آنکھ جھپکتے ہی دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے زندگی ختم … کھیل ختم… دنیا کا میدان خالی … آخری بورڈ ظاہر ہوتا ہے جس پر لکھا ہے … !
الوداع … اے زندگی … ! کھیل ختم … نام و نشان ختم … نئے کھلاڑی نئے میدان … نئے تماشائی ‘ نئی تماشگاہ … جو انسان چھوڑ جاتا ہے دوسرے کی مرضی اُس پر حاوی ہو جاتی ہے اِدھر کھلاڑی زمین کی تہہ میں اترا اُدھر کھیل کے ختم ہونے کا اعلان کل دس بجے قل شروع گیارہ بجے دعا … !

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich