Episode 23 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 23 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

میرے خیال میں
جو برُہانی فکر کا تصور پیش کرے اُسے ”مفکر“ کہتے ہیں ‘ جس کی فکر کی کوئی سرحد نہ ہو اور لوگوں کی طرح سوچ میں امتیاز نہ ہو ‘ سمجھ میں اور سمجھانے میں کوئی ذاتی ‘ مذہبی ‘ علاقائی ‘ قومی اغراض نہ ہو بلکہ آفاقی پیغامات ہوں اور ساری فکر میں انسانیت کا پیغام ہو اِس کی اصلاح اور فلاح ہو جو ہر انسان کے اندر والی کتاب کو کھولنے کی عطا سے نوازا گیا ہو جس پر کوئی پیغام حقیقت یقین کی صورت میں اتارا گیا ہو عرف عام میں جسے آورد کہتے ہیں ۔
مفکر زندہ قوموں کی روح ہوتا ہے اور اُسی قوم کو عروج ملتا ہے جس کے پاس مفکر ہوں ۔
جو فطرت کا نغمہ الفاظ کی سُر تال میں سنائے اُسے ” شاعر“ کہتے ہیں ‘ جو فطرت کی باتوں میں بصیرت کی آخری حد تک چلا جائے اُسے شاعر کمال کہتے ہیں ‘ جو فطرت کا پیغام لوگوں تک پہنچائے ‘ جو پرندوں‘ درندوں‘ نباتات ‘ حشرات اور حیوانات کے رویوں اور اُن کے مناظر کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرے اور لوگوں کے دل و دماغ پر محبت کا جادو جگائے واہ واہ کی داد لے وہ بہترین شاعر ہوتا ہے جو منظرنامہ پیش کرنے کی عطا سے نوازا گیا ہو جو ردیف ‘ قافیہ کے ترازو سے آگاہ ہو جس کے قلم اور الفاظ میں سرفہرست محبوب‘ محبت ‘ زلف دراز‘ چشم آہو‘ نازک بدلی‘ پھول کی پتی اور خوشبو ہو وہ بڑا شاعر تصور ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

جو قصے اور کہانیاں ‘ حکایتیں اور داستانیں اِس طرح سنائے جیسے حقیقت ہیں مگر وہ مصنوعی واقعات ہو لیکن الفاظ کی زینت اور فکر کے زاویہ نے اُسے حقیقت والا روپ دیا ہو اُسے ” ادیب “ کہتے ہیں اس کا انگریزی نام فکشن ہے جو عام تحریر تو ہو مگر پڑھنے والے کسی خاص کے نزدیک انتہائی خاص ہو جس سے وہ لطف اندوز ہو اور سمجھے یہ کوئی اُس کی اپنی کارگزاری ہے وہ لکھاری اور ادیب ہوتا ہے ۔
فطرت کے نظاروں کو رنگوں سے جو اوراق پر اتارے اُسے کلکار کہتے ہیں جو اپنی آنکھوں میں تصویر کو اتار کر کینوس پر ایسے اتارے معلوم ہو یہ منظر ہوبہو ہے جس کو دیکھ کر انسان فطرت میں گم ہو جائے معلوم ایسے ہو وہ کسی زندہ شئے کو اپنی آنکھ میں موجود پا رہا ہے وہ فن پارہ جو کلکار کی روح کسی ورق پر بناتی ہے اُس میں کلکار کی جان ہوتی ہے اور صدیوں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتی ہے کلکار مر جاتا ہے مگر کلا زندہ رہتی ہے بلکہ اُس فن پارہ میں کلکار کی روح ہوتی ہے اور اُس کا جسم قبر میں چلا جاتا ہے ۔
جو کوئی کسی کی نقل اِس طرح اتارے معلوم ایسے ہو یہ اصل ہے اُسے ” اداکار “ کہتے ہیں ۔ اداکاری کے بعد وہ اپنی اصل اور خالص حالت میں اِس بیان کی تصدیق کرے کہ وہ ‘وہ نہیں جس طرح اُس نے بن کر دکھایا تھا ۔ ایسے لوگ انسانوں کے مزاج میں لطافت پیدا کرتے ہیں اور بیک وقت بہت سے لوگوں کی حالت میں آپ کی طبیعت میں لطافت پیدا کر کے آپ کی روح کو خوش کرتے ہیں اور آپ ہنستے‘ قہقہے لگاتے اور داد دیتے ہیں یہ معاشرہ کے اندر ظرافت کا باعث ہوتے ہیں یہ غم زدہ دلوں میں خوشیاں بھرتے ہیں یہ روتے ہوؤں کو ہنساتے ہیں اور ہنستے ہوئے کو رلا دیتے ہیں یہ لوگوں کے دلوں میں اتر کر انہیں ٹٹولتے ہیں گدگدی کرتے ہیں آنکھوں میں نظارہ باندھ دیتے ہیں اور وقتی طور پر آپ پر بے خودی طاری کر دیتے ہیں ۔
یہ انسانی کیفیت کو تبدیل کرنے کا جوہر رکھتے ہیں یہ اپنی مصنوعی اداؤں سے فطری ماحول پیدا کرتے ہیں مگر یہ عام لوگوں سے زیادہ دکھی ہوتے ہیں کیونکہ یہ بہت سے کرداروں میں خود کو ڈھالتے ہیں راہ گزرتے لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور یہ ان رویوں سے خوشیاں کشید کرتے ہیں مگر مسلکی اور سیاسی اداکار جعلی جھوٹے اور مکار ہوتے ہیں سچا اداکار اگر جھوٹ بھی بولے تو سچا لگتا ہے کیونکہ اُس کے دل میں میل نہیں ہوتی اُس کا چہرہ اپنا ہوتا ہے مگر اُس پر حلیہ کسی اور کا لگتا ہے ۔
اداکاری خدا کی عطا کی ہوئی نعمت ہے ۔
گلوکار نہ فنکار ہوتا ہے نہ اداکار بلکہ اُس کے گلے میں آواز کا اک نور ہوتا ہے اس کے گلے میں آواز کا اک سوز اور جادو ہوتا ہے وہ محنت اور ریاضت سے آواز کے اتار اور چڑھاؤ کو نہیں بنا سکتا جب تک خالق اپنی خلقت میں سے اُس کے گلے میں کوئی جوہر رکھ نہیں دیتا وہ دلوں کو گرما دیتا ہے وہ الفاظ کو آواز سے حسین بنا دیتا ہے وہ لوگوں کی سماعتوں پہ حکمرانی کا جوہر رکھتا ہے ۔
آواز کا جادو کسی کی ملکیت نہیں ہوتا یہ خدا کی خاص مہربانی اور عنایت ہے ۔ گانے والا لوگوں کی روحوں کو آواز کے جادو سے جگاتا ہے فن وہ ہوتا ہے جو سیکھا جاتا ہے آواز سریلی نہ ہو تو گانے کا فن نہیں آتا اور گانا نہیں گایا جاتا لوگوں کو انتظار نہیں کروایا جاتا لوگوں سے داد نہیں لی جا سکتی ہاتھ اٹھا کر واہ واہ کی داد وصول نہیں کی جا سکتی …!
جو کسی چیز کو مصنوعی طور پر اتنا خوبصورت بنائے کہ انسان کے دل میں اتر جائے لوگ اُسے فن کار کہتے ہیں جو ایک شئے کو دیکھ کر اُس جیسی دوسری بنا سکے مگر اُس میں روح نہ پھونک سکے مگر ایسے لگے کہ اُس نے کوئی زندہ تخلیق بنائی ہے دیکھنے والا عش عش کر اُٹھے کتنا خوبصورت بنایا گیا ہے وہ کسی مادہ سے بنائی گئی شئے ہو جس میں فنکار کے ہاتھ کا جوہر نمایاں ہو جو اُس کے نام کی نسبت سے ایک یادگار ہو لوگ صدیوں اُس کا نام لے کر اُس شئے کو دیکھنے آئیں اور اُسے داد دیں فنکار خواہ مر جائے مگر فن زندہ رہتا ہے اور اُسے زندہ رکھنے کے لئے کوئی دوسرا فنکار پیدا ہو جاتا ہے یہ نظام قدرت کے کارنامہ کی پیداوار ہے ۔
جو فنکار کی قدر نہیں کرتا وہ فرد ہو یا قوم وہ بے روح رہے گی ۔
جو الفاظ کے فن سے آگاہ ہو اُسے ” قلمکار“ کہتے ہیں اور عرف عام میں اُس کا نام صحافی ہے جو صحافت کے میدان کا کھلاڑی ہوتا ہے ‘ جو بات کا بتنگڑ بناتا ہے اور معمولی سی بات کو غیر معمولی بنا کر پیش کرتا ہے جس کا کوئی پیشہ نہیں ہوتا اور سب پیشے اُس کے اپنے ہوتے ہیں جو کرسی ساتھ رکھتا ہے جہاں چاہے اپنی تماشا گاہ بنائے در در کی خاک چھانے اور بے در بے گھر زندگی بسر کرے مفت کی چائے‘ سگریٹ اور کرایہ مانگ کر سفر کرے کئی بار جوتے کو پیوند لگوائے مگر دماغ سے صحافت کا خمار نہ جائے ‘ بغل میں تین سالہ پرانا رسالہ دبائے ہر کسی کو اپنا تعارف کرائے ‘ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے اور کسی کی پرواہ نہ کرے جہاں جائے وہاں کسی نا کسی اخبار کا ذکر کرے اور اپنے ویکلی ‘ ماہنامہ ‘ سہ ماہی یا سالانہ کے اجراء کی خوشخبری دے پوچھنے پر بتائے کوئی کام نہیں کرتا اور ہر کام کرتا ہے ۔
کام کروا لو ‘ کام کروا لو کی صدا لگائے اور دفتر دفتر گھوم کر رشوت خوروں اور کمیشن خوروں سے اپنا حصہ وصول کرے کوئی راز کی بات مل جائے تو متعلقہ شخص کو بلیک میل کر کے روٹی‘ کپڑا ‘ جوتا اور کرایہ وصولے اپنی صفائی دے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالے شہر کے معززین میں خود کو شمار کرے مگر نہ گھر میں عزت نہ باہر کوئی نام فقط تعارف کے لئے کسی قومی اخبار کا تعارف نامہ جیب میں رکھے جن کو اپنی کمائی میں سے کمیشن دے اور خود کو قلم کار کہے ۔
واہ رے میرے دوست صحافی ! تیری بے ضمیر عظمت کو سلام ‘ تیری نوسربازی کے سامنے میرا سر خم … تیرے فن پہ میرا سب کچھ قربان ‘ میری جان تجھے صد سلام تیرے اِس بے مقصد ‘ بے مقدس ‘ بے ایمان پیشہ پہ ہزار ہزار … بار بار … !
یہ میری رائے ہے اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ اُس کی اپنی رائے ہے مگر حقیقت اور فطرت کے معاملہ میں دو رائے ہو نہیں سکتیں اگر کسی دوسرے کی فکر‘ فلسفہ اور منطق میں اِس سے بہتر اِن معاملات میں رائے اور سوچ ہے تو میں اُس کی قدر کرتا ہوں … !
میں کیا لکھتا ہوں اِس کے بارے میں میرے قاری کی رائے قابل احترام اور قابل اعتبار ہے میں کتاب حقیقت میں سے لکھتا ہوں اگر وہ بھی اپنی حقیقت والی کتاب کھول کر پڑھے گا تو اُس میں بھی یہی کچھ لکھا ہو گا لہذا میرا قاری مجھے کسی بھی نام سے یاد رکھ سکتا ہے ‘ مفکر‘ شاعر‘ ادیب‘ کلکار ‘ فنکار‘ اداکار اِس کا انحصار اُس کی رائے پر ہے ۔
بحرحال یہ تحریر میرے نفس کی آواز ہے۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich