Episode 2 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 2 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

میری بات سنو
سنو میری بات میں آواز نفس ہوں ‘ میں صدا لگا رہا ہوں ‘ میں آپ کو حق کی طرف بلا رہا ہوں میری بات پہ توجہ دو میں گناہ سے تمہیں دور رکھنا چا رہا ہوں ۔
میرے نفس کی یہ آواز ہے مسلمان کا حسب و نسب کلمہ توحید ہے نا کہ وطن ‘ سارے وطن ہمارے ہیں جہاں جہاں لا الہ ٰ الا اللہ ہے جہاں جہاں محمدا لرسول اللہ  ہے ۔ وہ مسلمان نہیں جو کلمہ توحید کے وارث کو کافر کہتا ہے جو اُس سے نفرت کرتااور نفرت کا درس دیتا ہے ۔
میرے نفس کی یہ آواز ہے علم قوموں کی زندگی ہے جس نے باب العلم نہیں دیکھا اُس میں شعور نہیں آ سکتا اور جس ذہن میں کوئی مقصد نہ ہو وہ یہ آواز کیسے سنے گا ۔ بے گھر اور بے سر کو کیا معلوم زندگی کیسے بسر کرنی ہے ۔
آواز نفس آواز قضا ہے بلکہ قضا الٰہی ہے اِس میں ایک نصب العین کا ہونا ضروری ہے اِس کا پیغام ہے دنیا خدا نے بنائی ہے مگر تاریخ اور جغرافیہ دنیا میں بسنے والوں نے بنایا اور خون بھی انہوں نے بہایا ہے ۔

(جاری ہے)

میرے نفس کی یہ آواز ہے جو لوگ عدم تشدد کی بات تو کرتے ہیں مگر بے گناہ لوگوں کی لاشوں پر نوحہ کیوں نہیں پڑھتے ماتم کیوں نہیں کرتے تعزیت کیوں بجا نہیں لاتے شاید اُن کے نفس میں نخوت کی بغاوت ہے یا بغض کی کوئی خار دار جھاڑی یا زہر آلود نظریہ … !
میرے نفس نے آواز دی غفلت انسان کی اپنی ہوتی ہے مگر جواز دوسروں میں تلاش کرتا ہے اِس کی اپنی غفلت اِس کی دشمن ہے میں اُس کا دشمن نہیں …!
جو حقیقت نفس جان لیتے ہیں وہ آواز نفس پہچان لیتے ہیں ۔
جو رمز زندگی سے آشنا نہیں اُسے کسی کی پرواہ نہیں جو دنیا کو فنا کی نظر سے دیکھے گا اُس کو آوازِ نفس سیدھے راستے پر رکھے گی ۔
جو زندگی کے ساتھ انصاف کرے گا وہی نفس کے سریلے نغمات سنے گا وہی نفس کی پہچان کرے گا اُسی کو اپنے نفس سے محبت ہو گی جو شیطان کے ساتھ معرکہ آرا ہو گا ۔
جب تم اپنے نفس کو مخاطب کرو گے اُس کی آواز ضرور آئے گی وہ محبت سے تمہیں سیدھے راستے پر گامزن کرے گا وہ تمہیں خیر کی طرف بلائے گا … زندگی ہی ہمارے نفس کی باز گشت ہے ۔
انسان کی توجہ کا مرکز تکمیل خواہشات‘ مطلب پرستی‘ مفاد پرستی ‘ لالچ اور نفس پرستی ہے نہ کہ فرض شناسی ‘ نفس شناسی ‘ خدا شناسی اور حقیقت شناسی ہے اِس وجہ سے وہ ہمہ جہت بہرہ ہے وہ اپنے ضمیر اور نفس کی آواز کی پہچان کھو چکا ہے دنیا کے ہنگامہ میں گم ہو چکا ہے اُس کے ہر کام میں فریب نفسی ہے اِس وجہ سے دوسرے میں اُسے نقائص نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بھی وہی کچھ کر رہا ہے جو دوسرا کر رہا ہے اِس کی وجہ عدم یقین کہ جو وہ کر رہا ہے دوسرا اِس کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا ۔
نفس صدا لگا رہا ہے اے انسان تو کدھر جا رہا ہے مگر وہ بے شعور اور لاشعورمیلہ میں خود سے بچھڑ چکا ہے اُس کو خود کی تلاش مقصود ہے تا کہ وہ معرفت خداوندی سے آشنا ہو سکے ۔ آواز نفس دراصل خالق کی آواز ہے ۔
آواز نفس دراصل خدائی آواز ہے اور اِسے خدا کا بندہ سن سکتا ہے ۔
غم زدہ زندگی
آہیں جب سانسوں کا حصہ بن جائیں تو سمجھ لو کسی احساس غم نے آپ کی زندگی کی خوشیوں کو گروی رکھ لیا ہے ۔
جو شخص غموں اور محرومیوں میں آنکھ کھولتا ہے وہ غم اور خوشی میں فرق کرنا مشکل سمجھتا ہے ۔ وہ لوگ بڑے باہمت ہوتے ہیں جو مشکلات کا سفر حیات ایک پڑاؤ سمجھ کر گزار دیتے ہیں مگر زندگی کا مشکل سفر اپنے نقش قدم بحرحال مسافر کے چہرے پر چھوڑ کر جاتا ہے ۔ انسان کے چہرے پر جھریاں اُس کے سفر کی گواہی دیتی ہیں مسافر کتنی مشکلات سے گزرا ہے ۔
جس نے زندگی میں خوشی کا کبھی چہرہ نہ دیکھا ہو وہ کیا جانے خوشی کیسی ہوتی ہے مگر صبر اور استقامت کے ساتھ خود داری کی زندگی بسر کرنے والے کبھی غمگین نہیں ہوتے جو دن بھر محنت و مزدوری کر کے گھر جاتے ہیں جو خدا کی رضا میں راضی رہتے ہیں جو محنت سے محبت کرتے ہیں انہیں کوئی پریشان کیوں کرے گا ۔
اُن کی خوشی تو خدا کی خوشی میں ہوتی ہے جو زندگی کے غموں کو اپنی روح میں جذب کر لیتے ہیں ‘ خدا اُن کی روح کو آسودہ بنا دیتا ہے ‘ غم میں بھی ایک سوز ہوتا ہے اور یہ سوز وہ ہستیاں پا سکتی ہیں جو راضی برضا ہوتی ہیں ‘ جو محبت بھرے دل سے خدا کو یاد رکھتے ہیں ‘ جو دل میں کعبہ کو سمائے رکھتے ہیں ‘ جو روح میں روضہ رسول ﷺ کو بسائے رکھتے ہیں غم انہیں کچھ نہیں کہتے خواہ وہ ساری زندگی غموں میں گزار دیں یہ سب اُن کی روحانی شادمانی ہے ۔
غم زدہ زندگی بہت سی انجانی داستانوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور ایسی زندگی میں میٹھا سوز ہوتا ہے اُن لوگوں کے لئے جو دل میں کسی نا کسی کے لئے محبت کا احساس رکھتے ہیں ۔ غم دکھوں کا سہارا ہوتے ہیں اور دُکھ غموں کی پرورش کرتے ہیں ۔ غم زندگی میں نکھار پیدا کرتے ہیں صدا خوشیاں زندگی کو دبا کر رکھتی ہیں وہ اعلیٰ فکر سے دور لے جاتی ہیں جبکہ غم ہر لمحہ نئی زندگی کو جنم دیتے ہیں ۔
غم زندہ زندگی احساس کو جنم دیتی ہے اور دوسروں کے دُکھوں کو محسوس کرتی ہے دراصل یہ پیاسی روح کا ایک ٹھنڈا سایہ ہوتی ہے ۔ جب تک انسان کے ایمان میں حرارت اور اصل زندگی کو محسوس کرنے والا جذبہ بیدار نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ منزل انسانیت پر فائز نہیں ہو گا ۔
ساری زندگی خوشیاں سمیٹنے والا اور خوش رہنے والا زندگی کے اعلیٰ مقصد کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔
رونا اور ہنسنا خوشی اور غم نہیں انسان رو کر بھی خوشی محسوس کر سکتا ہے اور ہنس کر غموں کو ٹال سکتا ہے جب اِس بات پر اُس کا یقین محکم ہوتا ہے کہ خالق کی رضا ہی سب سے بہترین مددگار ہے انسان کا صرف راہ راست پر چلنا درکار ہے ۔
انسان خواہ کسی بھی حالت میں ہو اُس کو سیدھے راستے پر چلتے رہنا چاہئے خدا اُس کے باطن والی شمع روشن رکھے گا ‘جب وہ شمع بجھ جائے تو آنکھوں کی موجودگی میں بصارت بے نور ہو جاتی ہے اور یہی غمزدہ زندگی ہے ۔
اندر کی روشنی ہی دراصل خوشی ہے جو خوش رہنا چاہے اُسے غم کچھ نہیں کہتے غم تو زندگی کو سہارا دیتے ہیں خوشیاں اصل زندگی سے بے خبر رکھتی ہیں ۔
ہدایت یافتہ لوگ غم زدہ زندگی کو خوش کن زندگی پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُن کے اندر یقین کی وہ دولت ہوتی ہے جو اطمینان کا باعث ہے وہ موت کا مزہ ہے ۔ موت کا مزہ غم زدہ زندگی کو حیات بخشتا ہے ۔ وہ لوگ جو موت سے ڈرتے ہیں وہ نہ زندگی کا مزہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی اُن کے نصیب میں مزیدار موت ہوتی ہے ‘ ڈرے تو انسان اُس سے جو ٹل جائے جس نے ضرور آنا ہے اُس کا شدت سے انتظار کرو دراصل انتظار موت ہے جب موت کا انتظار ختم ہو جاتا ہے تو انسان کو یقین آ جاتا ہے کہ یہی زندگی کا انجام ہے ۔
غموں سے محبت کرو خوشیاں آپ سے محبت کریں گی وہ غم جو آپ کو بے نیاز بنا دے جو آپ کی روح کو آسودگی کے سایہ میں رکھے ۔ سب کچھ بھول جاؤ مگر موت کو ہر وقت یادرکھو یہ یاد آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔
غموں کا بوجھ اٹھاؤ زندگی کو آسان بناؤ غموں کو اپنے اوپر سوار مت کرو نہ ہی خوشیوں کو ورنہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے ‘ اعتدال میں رہو اور اِسے پسند کرو ‘ رواداری کا دامن تھام کر رکھو اور اپنی نظروں سے گرنے والے شخص کا کوئی مقام نہیں ہوتا ۔ زندگی محبتوں کے لئے ہوتی ہے اِسے نفرت کا لباس مت پہناؤ بدصورت ہو جائے گی ۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich