Episode 12 - Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich

قسط نمبر 12 - آوازِ نفس - قلب حسین وڑائچ

حمام میں سارے ننگے ہیں
ادب عبادت ہے اور عبادت سب سے بڑا ادب ہے جو ادب کرنا اور کروانا نہیں جانتا وہ سب سے بڑا بے ادب ہے ۔ بے ادب کی عبادت بھی بے ادب ہے بلکہ فریب ادب ہے ۔
ادب یہ ہے کہ آپ الفاظ کی کیفیت میں ڈھل جائیں بلکہ الفاظ قبیل کا فرد بن جائیں جب آپ الفاظ میں داخل ہوں تو الفاظ لگیں اور جب الفاظ آپ میں داخل ہوں تو آپ الفاظ بن جائیں۔
ادب یہ ہے کہ جب آپ خدا کے حضور پیش ہوں تو خداکے ہو جائیں بلکہ خدا والے ہو جائیں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ خدا کے روبرو ہوں مگر آپ کے اندر شیطانی خواہشات ہوں یہ ادب والی عبادت کے ساتھ مذاق ہے ۔
ادب یہ ہے کہ جہاں سارے ننگے ہیں وہاں مت جائیں اور اگر چلے گئے ہیں تو آپ ننگے مت ہوں ۔ ادب میں یہ ضروری نہیں کہ آپ ننگے ہوں تو آپ کو ننگا کیا جائے بلکہ یہ وہ حمام ہے جو ادب کے محلہ میں ہے آپ با لباس ہیں مگر آپ ننگے نظر آئیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا نظریہ حیات ننگا ہے آپ کا نفس ننگا ہے آپ کے وجود کو ننگا ہونا مقصود نہیں مطلب واضح ہے جو فطری اصولوں سے دانستہ انحراف کرتا ہے وہ بے ادب اور ننگا ہے جو الفاظ کی ستر پوشی نہیں کرتا وہ ننگا ہے ۔

(جاری ہے)

” حمام میں سارے ننگے ہیں“
اِس محاورے کے خالق کی تلاش کے لئے آج میں شہر میں نکلا ہوں اگر مجھے مل گیا تو آپ کو بتاؤں گا اور اگر آپ کو ملے تو مجھے اُس کا نام و پتہ بتانا آپ پر فرض ہے ۔
میں نے شہر کے سارے حمام چھان مارے ہیں مگر مجھے محاورہ باز نہیں ملا حمام سارے دیکھے ہیں ادب سے اُن سے پوچھا ہے سارے ننگے آپ کے حمام میں ہیں انہوں نے شرم سے سر جھکایا اور کہا آپ خود دیکھ لیں ۔
میں نے دیکھا سارا شہر ننگا ہے اور شہر میں سارے ننگے حمام میں اکٹھے ہیں… اکثر با لباس ہیں مگر حمام میں سارے ننگے ہیں یہاں تک کہ حمام والا بھی ننگا ہے ۔
میں نے صاحب ادب حمام دیکھا ہے وہ ادب کی باتیں کرتے ہیں مگر ادب والے عمل سے دور ہیں وہ شعور کی بات کرتے ہیں مگر خود لاشعورے ہیں با ادب خبریں بے ادب لباس میں لوگوں تک پہنچاتے ہیں حمام میں جتنے ننگے ہیں ایک ایک کو جانتے ہیں مگر جن کے ساتھ اُن کے تعلقات مضبوط اور واضح ہیں اُن کی ستر پوشی کرتے ہیں حرام کماتے ہیں ‘ حرام کھاتے ہیں ‘ حرام بکتے ہیں ‘ حرام بیچتے ہیں ‘ حرام خریدتے ہیں ‘ حرام لے کر گھر سے نکلتے ہیں ‘ حرام لے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں اور گہری رات تک مارے مارے ننگوں کی تلاش میں حمام ‘ حمام شہر میں آوارہ گردی کرتے ہیں ۔
میں اہل تعلیم کے حمام پر گیا وہاں وہ ننگا کرسی دھوپ میں ڈال کر سردی کو بہلاوا دے رہا تھا … علم اور طالب علم ایک دوسرے پر گرد بازی والا کھیل ‘ کھیل رہے تھے اور صاحب علم مزے سے دونوں پاؤں کرسی پر رکھ کر سگریٹ نوشی میں مصروف تھا اُس کے نزدیک بورڈ پر لکھا تھا ’‘ سگریٹ نوشی صحت کے لئے نقصان دہ ہے “ میں نے پوچھا آپ کا رویہ اِس طرح کیوں ہے اُس نے کہا ………
”حمام میں سارے ننگے ہیں “
میں اہل شریعت کے تکیہ پر گیا وہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے اور اُس کے ارد گرد شریعت پرست اُس کے شرعی علم کی تعریف میں پل باندھ رہے تھے میں بھی خاموش ہو کر بیٹھ گیا دیکھوں اِس حمام میں کیا ہوتا ہے وہ ایک دوسرے کی علمی حیثیت کی کج بحثی میں مصروف تھے ہر کوئی اپنی ستر پوشی کے حق میں دلائل دے رہا تھا اور ہر دوسرے کو سمجھ رہا تھا وہ ننگا ہے مگر میں نے یقین کر لیا اِس ” حمام میں سارے ننگے ہیں “۔
میں اہل قانون کے دربار میں گیا وہ اہل شریعت سے مختلف تھے وہاں نہ کوئی عمامہ نہ عبا ‘ قبا نہ ریش مبارک نہ ریش پر ہاتھ کی صفائی وہ سارے لباس سیاہ میں ملبوس ‘ سیاہ پھندہ گلے میں ڈالے اپنے نفس امارہ کو پھانسی دے رہے تھے مجھے خاموشی کھا رہی تھی اور میں خاموش ہو کر وہاں بیٹھ گیا سب ایک دوسرے کو اپنے جھوٹ کی کہانیاں سنا رہے تھے اور اپنے فریب نفس کی کمائی کی داستانیں بیان کر رہے تھے ہر کوئی اپنے آپ کو قانون باز سمجھ رہا تھا ایسے معلوم ہو رہا تھا میں بھی کسی قانون دان میں داخل ہو گیا ہوں ۔
جب میں پوری طرح اُن کے ماحول میں داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا ” حمام میں سارے ننگے ہیں “۔
اہل سیاست کے حمام پر گیا وہاں سیاسی حجامت باز بڑے بڑے معاشرتی اور معاشی قدآور شخصیات تشریف فرما تھیں وہاں اتنے بڑے بڑے جھوٹوں کا کاروبار اور دعوؤں کا اقرار کیا جا رہا تھا جو نہ ہونے والے تھے مگر معلوم ایسے ہو رہا تھا اِس حمام میں سارے ننگے سارے مسئلوں کا حل جانتے ہیں ہر آنے والے گاہک کے ساتھ جھوٹا لارا اور ہر ایک کو سچ نما جھوٹی تسلی میں نے اپنے کانوں سے سنی اور دیکھا اِس ” حمام میں سارے ننگے ہیں “۔
میں اہل سواری کے حمام پر گیا وہاں اک شور بے ہنگم مگر ہنگامہ خیز تھا آوازیں لک رہی تھیں لاہور باروباہر‘ باروباہر ‘ سیٹ پر بیٹھا کر لے جائیں گے جب سوار ہوا تو سواری بھری ہوئی تھی بلکہ کچھ مسافر ہنگر کے ساتھ بس میں لٹکے ہوئے تھے باروباہر کی بجائے شہر کے اندر سے سواری لے کر گیا مگر سواری چپ عزت نہ اتر جائے عزت تو بچ گئی مگر میں ننگا ہو گیا کیوں کہ ” حمام میں سارے ننگے تھے“۔
میں اہل قانون ساز کے اوطاق پر گیا وہ بھی حمام کی صورت تھا ملک کے چیدہ چیدہ بڑے قد آور حمام باز موجود تھے ہر کوئی ہاتھ اٹھا کر خدا کی قسم اٹھا کر یہ کہہ رہا تھا میں حمام میں ننگا نہیں ہوں گا مگر پھر کیا تھا سب نے لباس اتار دیا اور کرپشن کے ” حمام میں سارے ننگے تھے“۔ سب سے بڑا ننگا دھمال ڈال کر اِس ردھم میں نغمہ گو تھا کرپشن کرو … کرپشن میں مساوی حصوں کا خیال کرو ایک بات کا خیال ضرور رکھو قانون کی ستر پوشی کا خیال اِس حمام میں قانون ننگا نہ ہو پس میں وہاں سے منہ چھپا کر اور منہ میں توبہ دبا کر نکل آیا اُس ” حمام میں بھی سارے ننگے تھے “۔
میں قانون ساز کے حمام پر گیا وہاں صاحبان حمام بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان تھے بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے اُن میں سے انہیں اپنی صورت نظر نہیں آ رہی تھی مگر ہر آنے والے گاہک کو دیکھ رہے تھے وہ ننگا ہے بڑے بڑے ننگ باز اور رنگ باز وہاں آئے نہیں تھے بلائے گئے تھے ہر ایک ایسے لگ رہا تھا حاجی اور چھ وقت کا نمازی ہے جامہ تلاشی پر جو حال مقدمہ نکلا تو اُس میں ملک کا جنازہ معہ کفن اور مشک کا فور معہ کھانے والی دیگیں مہمان نوازی کے لئے یہ سب پاکباز مگر بدعنوانی‘ بد زبانی‘ بد کلامی‘ بد عہدی والے ” حمام میں سب ننگے تھے “ ننگوں نے ننگوں کو دیکھا تو بولے آپ ننگے ہیں ‘ آپ ننگے ہیں کہہ کر خاموش ہو گئے کیونکہ حمام میں سارے ننگے تھے ۔
میں وہاں گیا جس حمام میں تمام پیغمبری پیشہ سے وابسطہ لوگ اپنی اور لوگوں کی یک جاہ اور یک مشت حجامت بناتے ہیں مال خرید کر گھر میں سودا کیا اور بازار میں آ کر کہا کہ اتنا میں گھر میں پڑتا ہے اپنے ایمان کو فروخت اور دوسرے کے ایمان کو خریدا پھر بھاگ کر خانہ خدا میں گیا اپنے نفس کو وہاں فریب دیا اور 4x6سے اٹھا اور 4x6میں زندگی بسر کر کے دنیا سے چلا گیا اِس حمام میں بھی ننگا اور وہاں بھی ننگا اٹھایا جائے گا یہ سب جھوٹ اور ملاوٹ کا کاروبار کرنے والے پیغمبری پیشہ کی بدنامی کا باعث ہیں کیونکہ اِس ” حمام میں سارے ننگے ہیں “۔
میں وہاں گیا جس حمام میں سارے ننگے تھے مگر حمام باپردہ تھا اندر سارے ننگے تھے مگر لگ ایسے رہا تھا سارے باپردہ ہیں اندر اللہ ھو اللہ ھو کی آوازیں آ رہی تھیں اِس حمام کا نام مراقبہ ہال تھا لوگ زور زور سے اپنی گردنوں کو الگ اور جسم کو الگ اذیت دے رہے تھے پوچھنے پر معلوم ہوا یہاں اطمینان اور سکون فروخت ہوتا ہے بالباس اندر آتے ہیں اور ننگے ہو کر باہر نکلتے ہیں معلوم ہوا خالی ہاتھ آتے ہیں اور خالی واپس چلے جاتے ہیں جب تک ہال کی دُعا کھاتے ہیں اتنی دیر آرام رہتا ہے پھر وہی حال اِس حمام میں ‘ میں نے لوگوں کو نیم لباس میں دیکھا ۔
میں نے بڑے بڑے کھلے میدان حمام کی صورت میں دیکھے لوگ ننگے مگر لباس کے لئے وہاں آئے بھلا بتاؤ حمام میں سارے ننگے ہوں وہاں لباس کون فروخت کرتا ہے مگر وہاں لباس کی بہت سی دکانیں ہیں مگر لباس خاص قسم کا ملتا ہے کہیں چھوٹا پائجامہ ‘ کہیں سبز پگڑی ‘ کہیں عطر فروشی ‘ کہیں ٹوپی فروشی ‘ گروپ باز اُس حمام میں نہا کر نکلنے والے خود کو پاک صاف ‘ نماز باز اور فریب نفسی سے پاک ہو کر جب باہر نکلتے ہیں تو انہیں اطمینان ہوتا ہے اب سارے گناہ معاف ہو گئے ہیں اب کوئی کرنے والا گناہ اُن کے قریب نہیں آئے گا اور نہ ہی وہ کسی گناہ کو اجازت دیں گے کہ وہ اُن کے ساتھ کچھ کرے بتاؤ جب شہر میں سارے حمام ننگوں کے ہوں گے یہ وہاں با لباس عجیب لگتے ہیں دور سے یہ پہچانے جاتے ہیں یہ کس حمام سے نہا کر آئے ہیں ۔
کس کس حمام کا ذکر کروں اور کیسے کیسے حمام کی داستان بیان کروں ہر انسان کے اندر ایک اپنا حما م ہے اور اُس میں کتنا ننگا ہے اور کتنا سترپوش یہ وہی جانتا ہے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنی حیثیت کے مطابق ننگا ہوں جہاں جی چاہے وہاں لباس استعمال کر لیتا ہوں اور جہاں چاہوں ننگا ہو جاتا ہوں میں اتنا بہرہ ہوں کہ آواز نفس نہیں سن سکتا اور اتنا اندھا ہوں کہ اپنے اندر نہیں دیکھ سکتا اور اتنا بے خرد ہوں کہ زندگی کا مزہ نہیں لے سکتا مگر حمام میں سارے ننگے تڑنگے ہیں ننگے بھی اور بے شرم بھی ۔
خدایا ! یہ سب کیا ہے کس حد تک تیرے قہر کا انتظار کرنا ابھی باقی ہے کب تیری رحمت اٹھے گی … کب قیامت کا نقارہ بجے گا کب تیرے نمائندہ کا ظہور ہو گا … کب کعبہ کی چھت پر امن کا علم بلند ہو گا … کب تک ہم یوم حساب کا انتظار کریں گے دنیا میں تو سارے حمام صرف ننگوں کے لئے رہ گئے ہیں عبادت گاہیں بھی حمام کی صورت اختیار کر گئی ہیں لوگوں نے دلوں کو حمام بنا لیا ہے لوگوں کی پیشانیوں پر حمام کی رگڑ کے نشان صاف نظر آ رہے ہیں خدایا ! اب تو رحم نازل فرما دے اب تو قیامت برپا کر دے کیا ابھی کچھ باقی ہے جو ہونا ہے کیا ابھی کوئی عدم میں امن ہے جو ہونا باقی ہے کیا ابھی کوئی ظلم باقی ہے کیا ابھی کوئی فریب انسان کے پاس ہے جو نفس کو دینا باقی ہے ۔
خدایا ! اگر قیامت برپا کرنے میں دیر ہے تو اصلی اور خالص ادب لوگوں کو سکھا دے پڑھا دے یا کرا دے ادب ہی وہ واحد نسخہ ہے جو انسانیت کے علاج کے لئے باقی ہے نہ دنیا بے ادب ہے نہ زمانہ بس اِس میں بسنے والے لوگ بے ادب ہیں ‘ بے شعور اورشعور میں کیا انہیں یقین نہیں ایک دن حساب کا ہو گا ادب ہی وہ سائنس ہے جو روح کی آسودگی کا باعث ہے ادب کے ماحول میں کوئی ننگا نہیں ہوتا۔

Chapters / Baab of Awaz E Nafs By Qalab Hussain Warraich