تعلیمی مشکلات اور ان کا حل

تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ بہت سی قومیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر کامیابیوں کی منزلیں طے کر چکی ہیں۔ تعلیم کی وجہ سے ہی انسان اشرف المخلوقات کے عظیم درجے پر فائز ہے۔

منگل 29 اگست 2017

Taleemi Mushkilat Our In ka Haal
تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ بہت سی قومیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر کامیابیوں کی منزلیں طے کر چکی ہیں۔ تعلیم کی وجہ سے ہی انسان اشرف المخلوقات کے عظیم درجے پر فائز ہے۔ انسان کے وجود میں سے تعلیم کو نکال دیا جائے تو انسان جانوروں سے بدتر کہلائے۔تعلیم کی وجہ سے ہی مختلف قوموں نے ترقی کی۔

ہر قوم نے اپنی زبان کو ترجیح دی اور اسی میں ترقی حاصل کی ہے۔ لیکن ہم پاکستانی ہیں کہ ابھی تک انگریزی کلچر اور اسکی زبان کے سحر سے ہی نہیں نکل پا رہے۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا؟ ہمارے سکولز، کالجز میں بھی انگریزی زبان کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباءشدیدمشکلات کا شکار رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

کبھی ہم پکے مسلمان بننے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مغربی تہذیب کی نقالی کرتے نظر آتے ہیں ۔

ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارا نصاب اردو میں ہونا چاہئے یا انگریزی میں۔یہ سچ ہے انگریزی ایک جدید زبان ہے۔ یہ بہت سے ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جس کو سیکھنا ہماری ضرورت بن چکا ہے۔ لیکن اپنی زبان پر اسے فوقیت دینا سراسر غلط ہے۔ بہت سی ایسی قومیں بھی ہیں جنہوں نے اپنی زبان کو ترجیح دی او ر اس میں ترقی کی ہے۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ قومی زبان اردو ہوتے ہوئے بھی انگریزی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے۔

آخر ہمیں کونسی احساس کمتری ہے جو ہمیں ہماری زبان سے جدا کر رہی ہے۔ ہر سال نصاب کا انگریزی میں تبدیل ہو جانا اور مسلسل تبدیلی کی وجہ سے بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ نا صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ہائر ایجوکیشن کے برابر بھی ہوتا ہے جس کو بچوں کے کچے ذہن صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے اور نہ ہی نصاب کیساتھ مطابقت اختیار کر پاتے ہیں۔

ہمارا تعلیمی نظام 5 مراحل پر مشتمل ہے۔ پرائمری ،مڈل، سیکنڈری، انٹرمیڈیٹ، ہائر ایجوکیشن۔ حکومت کا یہ اقدام تو قابل احسن ہے جس میں انہوں نے پرائمری تک تعلیم مفت فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے تحت حکومت پرائمری سطح تک بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرتی ہے اور فیس بھی معاف ہے۔ یہ خوش آئند قدم شہروں تک تو ٹھیک ہے لیکن پسماندہ علاقوں میں آج بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں فرق کیا جاتا ہے۔

ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلام میں ایسا کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔ اسلام کے مطابق تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسکے باوجود لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کیوں ہیں۔ وزارت تعلیم کو چاہئے تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے۔ حکومت کا کام صرف امداد فراہم کرنا نہیں بلکہ اس پر عملداری بھی ضروری ہے۔

حکومت ایسی شکایات پر شرائط و ضوابط لاگو کروا کے لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنا سکتی ہے۔ یہ معاملہ صرف پسماندہ علاقوں میں ہی نہیں بلکہ پسماندہ صوبے اور اسکے نواح میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں پر خواتین کے تعلیمی اداروں کو طالبان کے خوف سے بند کیا جا رہا ہے اور حکومت اس سارے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف ہم تعلیمی درسگاہوں کا حال دیکھیں تو یہ درسگاہیں افسوس کا مقام بن کر رہ گئی ہیں۔ سرکاری فنڈز ہونے کے باوجود تعلیمی عمارات پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ آج بھی کئی پسماندہ علاقوں میں بچے کلاس رومز کی بجائے کھلے میدانوں میں کلاسز لینے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے دوسری طرف قابل اسا تذہ کی بے حد کمی ہے۔

اساتذہ بچوں کو فرض سمجھ کر نہیں بلکہ قرض سمجھ کر پڑھاتے ہیں۔ اساتذہ بچوں کی ذہنی نشوو¿نما کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام میں موجود خرابیاں آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی داﺅپر لگا سکتی ہیں۔ ملک میں تعلیم اردو میڈیم اور انگلش میڈیم میں فراہم کی جا رہی ہے۔ وہ طلباءجو بھاری فیسیں ادا نہیں کر پاتے ان کے لئے حکومتی سکولوں کے علاوہ کوئی اور انتخاب باقی نہیں رہتا۔

جبکہ ہائی پروفائل طلباءجن کا تعلق اچھے خانوادوں سے ہوتا ہے وہ انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنا اپنا حق سمجھتے ہیں جس سے ایسے انگلش میڈیم سکولوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور دوسرے بچوں کی احساس کمتری میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ پہلے ہی غربت کے ستائے ہوتے ہیں اوپر سے یہ امتیازی سلوک ان کے دکھ میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔ ان سب مشکلات کا حل یہ ہے کہ حکومت چند تجاویز پر عمل کر کے ملک کے تعلیمی معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔

جن میں تعلیم کی فراہمی کیساتھ ساتھ گاوں اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا جائے۔لڑکیوں کو یکساں تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تاکہ تعلیم حاصل کر کے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ پسماندہ علاقے جہاں تعلیم کا نظام ناقص ہے وہاں قابل اساتذہ کو بھیجا جائے اور ان کی نگرانی بھی کی جائے۔ اساتذہ کی سالانہ کارکردگی کو بھی چیک کیا جائے اور اچھا رزلٹ دینے والے اساتذہ کو انعامات دئے جائیں جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

مستقل طور پر فیصلہ کیا جائے کہ نصاب اردو میں ہونا چاہئے یا انگریزی میں اور اسی کے مطابق لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ بار بار نصاب تبدیل کرنے سے اساتذہ اور طلباءدونوں پریشان ہوتے ہیں۔ طلباءکیلئے الیکٹرانک کلاسز کا بھی انتظام کیا جائے تاکہ طلباءجدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Taleemi Mushkilat Our In ka Haal is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 August 2017 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.