کاراں یا پھر اخباراں

اماں ، رب راکھا، ہن یا تے کاراں وچ ملاں گے یا فیر اخباراں وچ

Afshan Khawar افشاں خاور جمعرات 22 جون 2023

Caraan Ya Phir Akhbaraan
عصر حاضر میں پوری دنیا خبروں کے زر یعے  ایک دوسرے سے جڑی ہے . اور ٹی وی یا موبائل فون اٹھاتے ہی ہر طرح کی خبروں کی یلغار شروع ہو جاتی ہے .اور ہم سب ہی یہ مانتے ہیں کہ آجکل کوئی اچھی خبر کبھی کبھار ہی سننے کو ملتی ہے اور عموما صرف اور صرف دل دہلا دینے والی معلومات ہی چل رہی ہوتی ہیں .
اس طرح کے حالات میں رہتے ہوے انسان آہستہ آہستہ ان معاملات کے بارے میں اپنی حساسیت کھونا شروع کر دیتا ہے .

اور عموما ایسی کوئی خبر کانوں میں پڑے تو تھوڑا سا دماغ میں رہ کر نکل جاتی ہے .
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی واقعہ کانوں میں پڑے اور دل کا راستہ پکڑ لے اور پھر وہاں سے آنکھوں کے ذریعے نکلے .

(جاری ہے)


جب ہم بہت چھوٹے بچے تھے تو والد صاحب کو بہت شوق ہوتا تھا کہ ہم وہ سب کریں جو عموما مردانہ کھیل سمجھے جاتے ہیں . نشانہ بازی ، گھڑ سواری وہ بھی بغیر کاٹھی کے، پیدل چلنا اور تیراکی .


باقی شوق تو عمر اور حالات کے تحت بہت پیچھے رہ گۓ لیکن تیراکی نے ہمارا کافی لمبا ساتھ دیا . چونکہ بچپن کا کافی لمبا عرصہ دیہاتی قصبے میں گزرا تو اس طرح کے مشاغل کے لئے وقت اور مواقع کافی دستیاب تھے .
بانو قدسیہ محترمہ فرماتی ہیں کے بعض دنوں میں عجیب سی خاصیت ہوتی ہے ، وہ بعض اوقات پھول کر بہت لمبے ہو جاتے ہیں. اور کبھی سکڑ کر بہت چھوٹے .
 دوستوں کو اس بات سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن میں تو یہ جانتی ہوں کہ فزکس اور میتھ  (Mathematics)کے 35 + 35 منٹس کے 2 پپرز شاید ھفتوں پر محیط ہو جاتے تھے اور کبھی الف لیلہ کی پوری ایک گھنٹے کی قسط لمحوں میں گزر جاتی تھی.
خیر چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں وقت گزرنے کی رفتار بہت ہی آہستہ ہوتی ہے .

اور وہاں رہتے ہوۓ ہمیں کبھی وقت، سچائی اور سکون کی کمی کا کبھی احساس تک نہ ہوا . ان دنوں ہم والد صاحب کے ساتھ کھلے پانی میں تیراکی کی مشق کیا کرتے تھے . اور کبھی کبھار ان کی مرضی کے خلاف ناک پکڑ کر گہرا غوطہ بھی لگا لیتے تھے. پانی ہمیشہ سے بہت پسند تھا اور والدہ ہمیں پیار میں مچھلی اور غصے میں مینڈک بھی کہ دیتی تھیں کہ ہر وقت پانی میں رہتی ہو.


 خیر یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری اور پانی کی دوستی میں بہت سالوں کی دوری آ گئی اور بڑے سالوں بعد ایک بہت خوبصورت ملک میں Beach پر ہماری اور پانی کی ملاقات ہوئی اور پہلی بار ہم نے محسوس کیا کہ جیسے ہی پانی تھوڑا گہرا ہوتا ہے ہمیں شدید بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے . یہ بہت ہی عجیب سا احساس تھا اور پھر اس کے کچھ سالوں میں ہر جگہ جہاں بھی ہمارا اور پانی کا سامنا ہوا ہمیں لگا کہ اب شاید ہماری دوستی ختم ہو چکی ہے.

بہت سوچا لیکن کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی .
فطرت کا ایک اصول ہے اس سے جب کوئی سوال کیا جائے جواب ضرور آتا ہے  . کبھی دیر سے کبھی سویر سے.
جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے میں کھیتی باڑی کے علاوہ سب سے مقبول روزگار سعودی ، دوبئی جانا ہے . اور وہاں جا کر محنت مزدوری کر کے سالوں میں نہ صرف اپنی بلکہ خاندان کی قسمت بدلی جاتی ہے.
اس جواب کو پایہ تکمیل پہنچانے میں 3 کردار بہت اہم ہوتے ہیں .

ایک وہ فرد جو دبئی جانا چاہے ، ایک ایجنٹ اور ایک لانچ .
بھوک اور بیروزگاری کے آدھے مرے ہوے لوگ بخوشی ادھار لے کر ایجنٹ کی مدد سے اس لانچ پر بیٹھ جاتے جو انہیں ایک ان دیکھے سونے کے دیس میں لے جاتی. سچا زمانہ تھا اور ان دنوں لانچیں مضبوط ، ایجنٹ ایماندار ، لوگ جفاکش، اور سمندری سرحدیں کمزور ہوا کرتی تھیں . یہ سب لوگ غیر ملک کے ساحل سے تھوڑا پہلے سمندر میں کود جاتے ، سمندر کا باقی ماندہ حصہ تیر کر عبور کرتے اور ساحلی پٹی پر چھپ جاتے.

عموما ان جیسے وہاں موجود ہوتے جو انہیں چھپ چھپا کر شہر لے جاتے. سچا زمانہ تھا ، کاغذات نہ بھی ہوتے تو بھی کفیل مزدوری پوری ادا کرتا. اور یوں آہستہ آہستہ یہ لوگ وہاں کاغذ بھی بنوا لیتے ، واپسی پر یہ لوگ ہاتھوں پر سنہری گھڑی باندھے آتے ، ہاتھوں میں چمکیلے بیگ اور آتے ہی CD 70 خریدتے اور چھٹیاں گزار کر چلے جاتے.
یہ ایماندار اور جفا کش لوگ تھے ، پیسہ پیسہ جوڑ کر گھر بناتے، بہن بھائیوں کی شادیاں ہوتیں اور والدین حج اور عمرہ پر چلے جاتے.
 بیوہ کی زندگی گزارتی بیوی کے ہاتھ میں سونے کی چوڑیاں ہوتیں، اور زندہ باپ کے یتیم بچے موٹر سائیکلوں پر گھومتے رہتے.
آہستہ آہستہ ہر پیشے کی طرح اس سسٹم میں بھی ایمانداری کم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی.

اناڑی اور لالچی ایجنٹس میدان میں آ گۓ اور سستی کمزور لانچوں پر یہ خاندانوں کے کفیل اپنی زندگی کا جوا کھیلنے لگے. ان ہی دنوں لانچ ڈوبنے کے واقعات سامنے آنے لگے. ڈوبنے والوں کی لاشیں بھی واپس نہیں آتیں . کیونکہ میّت لانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی تھی اور آخری ٹکہ بھی پہلے ہی ایجنٹ کو دیا جا چکا ہوتا تھا . مرنے والے تو کبھی کچھ بتا نہیں سکتے لیکن جو ڈوب کر مرنے سے بچ جاتے وہ ضرور واپس آ کر پانی کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے .
وقت کے ساتھ ساتھ دبئی سعودیہ میں بھی روزگار محدودد ہونے لگا اور یوں یہ معاملات کچھ سرد ہو گۓ.


ہمیں لگتا تھا کہ پانی میں موت یا مستقبل کی جنگ صرف جنوبی پنجاب کے لوگوں کا نصیب ہے . لیکن بعد میں جب انٹرنیشنل خبریں سنی تو معلوم ہوا کہ ہر غریب ملک کا نصیب ہے .
تھوڑی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا کہ جو قومیں پسماندہ ملکوں کا شکار کرتیں اور ان کے وسائل لوٹ کر چلی جاتی تھیں. ان ملکوں کے لوگ اس ہولناک سفر کو اختیار کر کے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں .

وہ وہاں جا کر بھی کام ہی کرتے ہیں . شائد بہت کم تعداد وہاں Benefits پر رہتی ہو. لیکن عموما یہ جفا کش وہاں بھی محنت کرتے ہیں. بہت سارے روح اور ضمیر کے Compromise کر کے Passport کے ساتھ واپس آتے ہیں .
عموما ائیرپورٹ پر جب میں لوگوں کے ہاتھ میں غیر ملکی پاسپورٹ دیکھتی ہوں تو مجھے ان کے چہرے پر لکھی ہوئی 14-16 گھنٹے کی نوکری نظر آتی ہے. کئی سال کی اپنے خاندان سے جدائی، عموما ضمیر پر ایک سمجھوتے کی خاطر کی ہوئی شادی کا احساس جرم اور بعض اوقات دوغلی نسل کی اولاد کے انجام کا دکھ ہوتا ہے .

مجھے یہ پاسپورٹ بہت ظالم لگتا ہے.
کیونکہ اس پاسپورٹ نے بہت کچھ تاوان میں لے کر دان میں صرف غیر ملکی ہونے کا غرور دیا ہوتا ہے .
اچھا، اگر کوئی حادثہ صرف ایک بار ہو تو انسان بھول بھی جاۓ ، پچھلے دو ماہ میں کھلے سمندر میں یورپ جانے والی کشتی کا یہ تیسرا حادثہ ہے. دو ماہ پہلے میں نے News میں دیکھا کہ ایک سال کے بچے کا لباس پانی میں تیر رہا تھا .

وہ لباس شاید میرے حافظے پر داغا گیا ہے. اور شائد وقت بھی اسے مدھم نہ کر سکے . پھر ایک تیرہ سال کا بچہ بھی اس حادثے کا شکار ہوا، اس کا تعلق پشاور سے تھا اور وہ اپنے بھائی اور ماموں کے پاس اٹلی جانا چاہتا تھا ، اور اس کے والد نے 30 لاکھ روپے ادا کئے تھے ، اس موت کے سفر کے لیے سمجھ نہیں آتی، پرچہ کس پر کاٹا جاۓ ؟
حکومت پر، ان ممالک پر جو غیر قانونی تارکین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، یا ان والدین پر جو جان بوجھ کر 13 سال کے بچے کو لانچ میں بٹھا دیتے ہیں 30 لاکھ ادا کر کے .


اگر یہ بچہ کوئی افغان ہوتا تو بات سمجھ آتی کہ غریب ہے جان بچا کر بھاگ رہا تھا اور اس کے پاس کوئی Option نہیں تھا.
13 سال کا بچہ ، اگر غیر قانونی طور پر یورپ چلا بھی جاۓ تو وہاں کتنا محفوظ ہو گا. یونان ، اٹلی ، جرمنی ان کم عمر تارکین وطن لڑکوں سے بھرے ہوے ہیں جو وہاں حالات سے تنگ آ کر جسم فروشی میں آ چکے ہیں.
13 سال کا بچہ، اس کے گھر والے کہتے تھے کہ وہ بہت روتا تھا کہ مجھے ہر صورت اٹلی جانا ہے.

جہاں اس کے ماموں اور بھائی رہتے ہیں. گمان غالب ہے کہ وہ بھی اسی طرح ہی گۓ ہوں گے. اور ان کی وجہ سے ہی اس طرح کے بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ ہم بھی رسک لے سکتے ہیں.
 اس Case میں، میں والدین کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی.
لیکن ہر کیس ایسا نہیں، ایک خاتون کھلاڑی جس کا تعلق کویٹہ سے تھا وہ بھی اسی حادثے میں جان بحق ہوئی.

وہ ایک Special Child کی سنگل مدر تھی.
کبھی Youtube کھولیں اور کشتی میں بیٹھے ان نوجوانوں کے چہرے دیکھیں، موت اور امید کے سیاہ اور سفید کے درمیان ایک Grey Area ہوتا ہے. ان نوجوانوں کے چہرے آپ دیکھیں تو آپکو وہ نظر آے گا. آنکھوں پر خوف ہوتا ہے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ. وہ نہیں جانتے کہ یہ ان کی تکلیف بھری زندگی کی آخری ویڈیو ہے. اور اس کے بعد صرف خوشیاں ہیں یا پھر اس زندگی کی ہی آخری ویڈیو ہے.
شیخوپورہ کے ایک ڈوبے نوجوان کی والدہ کی روتی ہوئی ویڈیو دیکھی، وہ کہ رہی تھی کہ اس کے بیٹے نے روانہ ہوتے ہوے کہا تھا،
اماں ، رب راکھا، ہن یا تے کاراں وچ ملاں گے یا فیر اخباراں وچ
مطلب یا تو امیر ہو کر کار میں آؤں گا یا پھر خبر بن کر اخبار میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Caraan Ya Phir Akhbaraan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 June 2023 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.