کرونا وائرس کے تعلیم پر وار

پاکستان میں سرکاری ونجی جامعات میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں،لیکن گزشتہ دو ماہ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کے باعث بند ہیں۔حکومت کی جانب سے پہلے31مئی اور پھر 15جولائی کوتعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے

Mohammad Ashar Saeed محمد اشعر سعید بدھ 27 مئی 2020

coronavirus ke taleem par waar
کرونا وائرس سے بچاؤاس وقت پوری دنیا کیلئے چیلنج بن چکا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو کے مطابق کرونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں 72 فی صد بچوں کی تعلیم متاثر ہو ئی ہے۔ یونیسکو کے مطابق دنیا بھر کے طالب علموں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ 
یونیسکو کے مطابق کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے پیش نظر 102ممالک میں اسکول، کالج اور جامعات سمیت تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث 85 کروڑ سے زائد طلباء تعلیم سے محروم ہو کرگھروں تک محدود ہیں۔

اس کے باوجود تقریباً 100ممالک میں تعلیم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔یوں ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں طلباء کی مجموعی تعداد کا نصف معمول کی تدریس سے محروم ہے۔
لاک ڈاؤن کے پیش نظر جہاں معیشت سمیت دیگر چیلنجز نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں تعلیمی شعبہ کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

(جاری ہے)

تعلیمی اداروں کی بندش کا مسئلہ تمام ممالک کیلئے یکساں ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کرونا کے برعکس چھ ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے تعلیمی ادارے ایک دن کیلئے بھی بند نہیں کیے،ان ممالک میں بیلاروس،ترکمانستان،تاجکستان،گرین لینڈ، نکاراگوا،پاپوانیوگنی شامل ہیں۔

حیران کن طور پر ایسے ممالک جہاں کرونا نے شدید متاثر کیا وہاں بھی جزو ی طور پر تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔ بعض ممالک میں دنیا بھر سے زیادہ اموات دیکھنے میں آئی لیکن تعلیم کا سلسلہ نہ رک سکا۔
یقینی طور پر تعلیم کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتی ہے جن ممالک میں اس اہم فریضے کو غیر معمولی حالات میں بھی ترجیح دی جاتی ہے وہاں امن سکون خوشحالی ترقی مقدر بن جاتی ہے۔

ان ممالک نے آن لائن نظام تعلیم موجود ہونے کے باوجود ایس او پیز اور حفاظتی اقدامات اٹھا کر تعلیمی ادارے کھولے جو انکی تعلیم سے متعلق اہمیت کی مثبت عکاسی کرتے ہیں۔
پاکستان میں سرکاری ونجی جامعات میں لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں،لیکن گزشتہ دو ماہ سے ملک بھر کے تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کے باعث بند ہیں۔حکومت کی جانب سے پہلے31مئی اور پھر 15جولائیُ کوتعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ نویں اور گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم طلباکو بالترتیب دسویں اور بارہویں جماعت میں سابقہ نمبرز کی بنیاد پر بغیر امتحانات پرموٹ کیا جائیگااورجامعات کے طلباآن لائن امتحانات دینگے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اقدام اہل علم کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گیا ہے کہ اگر تعلیم ہماری بنیادی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے تو تعلیمی تنزلی سے آنکھیں چرانا ہمارا شیوہ کیوں ہے،اگر ہم دنیاکے ممالک سے اپنا موازنہ کریں تو کوئی بھی پاکستانی جامعہ دنیا کی بہترین 500جامعات کی فہرست میں شامل نہیں۔

حکومت کی جانب سے متبادل نظام تعلیم کے لیے جامعات کی سطح پر آن لائن کلاسسز کا انتخاب کیا گیا، اس ضمن میں طلبا کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا جسکی بنیادی وجہ حکومت اور ہائیر ایجو کیشن کمیشن کی جانب سے میکنزم ترتیب نہ دیا جانا تھا کیونکہ ہم ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے اس سسٹم کے لیے مکمل طور پر تیار نہ تھے۔اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب کی جانب سے تعلیم گھر کیبل چینل اور آن لائن تعلیم کا ناکام پراجیکٹ شروع کیا گیا،جو آغاز میں ہی بری طرح ناکام ہو گیا ہے۔

 کورونا کا جڑ سے صفایا ہونا فی الوقت ممکن نہیں،اس لیئے اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی ہوگی اوراحتیاط کے ساتھ حوصلہ بھی رکھنا ہوگا لہٰذا دیگر شعبے کی طرح تعلیمی شعبے میں بھی کورونا کے بعدایک بڑا انقلاب آنے والا ہے۔بالخصو ص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں روایتی تعلیم کے جو طریقہ کار ہیں اس سے پرہیز کرتے ہوئے ایک نیا طریقہ کار اپنانے کاخاکہ شروع بھی ہوگیا ہے۔

اب جبکہ حکومت کی طرف سے نئے طریقہ تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے اور کلاس روم درس وتدریس کی جگہ آن لائن تعلیم کا انتظام اور امتحان کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ضروری قرار دیا جا رہاہے تو ایسے وقت میں سب سے پہلے جامعات میں جدید ترین کمپیوٹر اوردیگر آلات کی فراہمی کے ساتھ آن لائن سسٹم کے بنیادی ڈھانچوں کومستحکم کرنا ہوگا۔

یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں اورکالجوں میں اسّی فی صد طلبہ دیہی علاقے کے متوسط اور کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سبھوں کے پاس جدید ترین اسمارٹ فون سیٹ نہیں ہیں کہ وہ آن لائن یا دیگر سوشل میڈیا کے طریقہ کار کو اپنا سکیں۔
ایک بڑی دشواری یہ بھی ہے کہ دیہی علاقے کے طلبہ جو دیہات میں رہتے ہیں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہے،بالخصوص دیہی علاقے کی لڑکیوں کو آن لائن تعلیم یا پھر آن لائن امتحان تقریباً ناممکن ہے۔

اس لیئے اگر اس کورونا کے بعد کی دنیا بدل رہی ہے اور تعلیمی شعبے میں بھی تبدیلی ضروری ہے تو اس سے پہلے بنیادی ڈھانچوں کو مستحکم کرنا ہوگا اور دیہی علاقے کے طلباء اور طالبات کو کم شرح پر اسمارٹ فون کی سہولت فراہم کرنی ہوگی او ر اس کیلئے حکومت کو ایک بڑے فلاحی بجٹ کا اہتمام کرنا ہوگا۔سرکاری اور نجی سکولز میں حکومت کی طرف سے سنیٹائیزر اور ماسک کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔

طلبا کو ایک فاصلے پر بیٹھا کر تدریس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
اب جب کہ بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے تو سکولز، کالجزاور یونیورسٹیز بھی کھل رہی ہیں۔ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی نظام کو بھی تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ شروع کرے کیونکہ کرونا کے معدوم ہونے میں وقت لگے گا یا شاید یہ انسان کے مابین ہمیشہ رہے کیونکہ تاحال اسکی ویکسین کا کوئی پتا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

coronavirus ke taleem par waar is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 May 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.