لاک ڈاؤن کے دوران ہوم اسکولنگ کی ضرورت اور طریقہ کار

ہمارے ملک میں اسکول سسٹم لازم ملزوم سمجھا جاتا ہے اور عمومی رائے یہ بھی ہے کہ اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لئے والدین کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ درحقیقت ہوم اسکولنگ ایک متبادل نظام تعلیم ہی ہے جو آج سے سو سال پہلے دنیا کے بیشتر ملکوں میں کامیابی کے ساتھ رائج تھا

Mujahid Khan Tarangzai مجاہد خان ترنگزئی جمعہ 29 مئی 2020

lockdown ke doran home schooling ki zaroorat aur tarika car
ہوم اسکولنگ ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں بچے کو سکول بھیجنے کے بجائے مختلف ذرائع استعمال کر کے گھر پر ہی تعلیم دی جاتی ہے۔ایسے اسکولنگ سسٹم کو اپنانے کے مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں،مثلاً آپ کے علاقے میں سکول نہ ہونا،آپ کا اپنے بچے کی تعلیم وتربیت یا نصاب کے معاملے میں اسکول پر اعتماد نہ ہونا،اسکول کا ناقابل برداشت حد تک مہنگا ہونا اور اب موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات کے پیش نظر بھی ایسے اسکولنگ کو اپنایا جاسکتا ہے۔


ہمارے ملک میں اسکول سسٹم لازم ملزوم سمجھا جاتا ہے اور عمومی رائے یہ بھی ہے کہ اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لئے والدین کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ درحقیقت ہوم اسکولنگ ایک متبادل نظام تعلیم ہی ہے جو آج سے سو سال پہلے دنیا کے بیشتر ملکوں میں کامیابی کے ساتھ رائج تھا۔

(جاری ہے)

مغرب میں لازمی تعلیم کے قانون کے باوجود بڑی تعدادمیں والدین اس نظام تعلیم کو اپناتے ہیں اور اسٹیٹ بھی ان کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔

امریکا میں ہوم اسکولنگ کا قانونی دفاع کرنے والی تنظیم(HLDSA) کے مطابق امریکا میں ڈھائی ملین بچے اس طریقہ کار کے تحت اپنے گھروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کینیڈامیں یہ تعداد 60ہزار اور ساؤتھ افریقہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔امریکا کے چھبیسویں صدر تھیوڈور روزویک نے اپنی ابتدائی زندگی کے ستر ہ سال اسی طریقہ کے تحت تعلیم حاصل کی مگر 22 سال کی عمر میں ہارورڈ سے گریجویشن کیا۔

 کولمبیا یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ 24 سال لی عمر میں شہرہ آفاق کتاب ((THE NAVEL WAR OF 1812 تصنیف کی اور اپنے آپ کو ایک منجھا ہوا تاریخ دان منوایا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ممتاز سکالر مولانا ابولکلام آزادکوبھی فلسفہ، تاریخ،جغرافیہ،ریاضی شریعت اور سائنس کی تعلیم گھر ہی مختلف ٹیو ٹرز کے زریعہ دی گئی۔

آپ نے بارہ سال کی عمر میں نہ صرف اپنا ذاتی رسالہ نکالا بلکہ پندرہ سال کی عمر میں دوسرے رسالوں کے ایڈ یٹر بھی رہے۔
 اسکول سسٹم کے یقینا بہت زیادہ فائدے ہیں مگر یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ایک کلاس میں ایک عمر کے بچوں میں بھی ذہنی تفاوت ناگزیر ہے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان ان بچوں کا ہوتا ہے جو یا تو بہت زیادہ ذہین ہو ں یا بہت کُند ذہین۔

اِ ن دونوں گروپس کے بچے بسا اوقات کلاس کا ساتھ نہیں دے پاتے اور ٹیچرز اور والدین دونوں کے لئے مسئلہ بن جاتے ہیں۔یہ بات بھی مسلّمہ ہے کہ بچے کو جو انفرادی توجہ اس کی خامیوں، خوبیوں اور کمزوریوں کو نظر میں رکھ کر ماں یا باپ دے سکتا ہے،وہ اسکول کا کوئی ٹیچر چا ہے وہ کتنا بھی مخلص کیوں نہ ہو،نہیں دے سکتا۔ اورموجودہ لاک ڈاؤن کی صورت حال میں جہاں تمام تعلیمی ادارے کئی مہینوں تک بند ہیں، والدین کی بڑی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ بچوں کے تعلیم وتربیت کا خصوصی خیال رکھیں۔

 ہوم اسکولنگ کو اختیار کرنے والے اس طریق تعلیم کے لامحدودفائدہ گنواتے ہیں لیکن کچھ نقصانات بھی ہوسکتے ہیں اور اسے اختیار کرنے سے قبل اچھی طرح اپنے ذاتی حالات کو سامنے رکھ مناسب ہوم ورک ضروری ہے۔مثلاً یہ کہ کیا آپ یا آپ کے شریک حیات اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور اتنا وقت بچوں کے ساتھ گزارنے پر راضی ہیں؟ بہتر یہی ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کا گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ بچوں کو گائیڈ کرنے کے لئے مناسب وقت نکالا جاسکے۔

ہوم اسکولنگ کو ماضی اور حال میں بہت سے سطحوں پر کامیابی کے ساتھ اپنایا گیا ہے مگر اس کے لئے استقامت،سنجیدگی اور ماں باپ کی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرڑوں بچے اس وقت کورونا وبا کے خوف سے گھروں میں محدود ہیں۔لیکن انہیں اگر پڑھایا نہ گیا تو وہ بہت تیزی سے اپناسبق بھولتے جائیں گے۔لہذا ہوم اسکو لنگ کا سسٹم شروع کیا جائے اور بچوں کا وقت ضائع ہونے سے بچائیے۔

ذیل میں ہوم اسکولنگ کے حوالے سے طریقہ کار اور کچھ اُمورذ کر کیئے جاتے ہیں جوبہت مفید ہے
1) اسکول سجائیں،معمول بنائیں:
گھر کا ایک کمرہ مجازی سکول کے لیئے مختص کیجئے۔اگر ممکن ہوتو بچوں کو یونیفارم پہنا کر بٹھائیں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر اسے اسکول کے اوقات سمجھیں۔ٹائم ٹیبل اور شیڈول کا اعلان بھی کیجئے۔ گھر کے اسکول کا دورانیہ اصل اسکول سے نصف ہوناچاہیئے۔

2) پلانر استعمال کیجئے:
بچوں سے لکھوائیں اور پلانر کے تحت انہیں کام دیجئے۔ ہر بچے کی روزانہ کی رُو دار ایک پلانر میں لکھیں،جس سے بچوں کا حوصلہ بڑھے گااور مزید کام پر راغب ہوں گے۔
3) اسباق کے دوران وقفہ:
ہر سبق کے بعد بچوں کو فراغت کے کچھ لمحات دیجئے۔ اس کے بعد دوسرا مضمون کا سبق پڑھائیں۔
4) اساتذہ سے مدد لیجئے:
تمام والدین اساتذہ نہیں ہوسکتے اورنہ و الدین چند دنوں میں استاد بھی بن سکتے،اس ضمن میں اپنے اردگرد یاآن لائن استاد سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔

فیس بک پر بھی بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جو مدد کے لئے موجود ہیں۔ 
5) بچوں کی دماغی صحت کاخیال رکھیئے:
اس میں شک نہیں کہ وباکایہ دور ہم سب کیلئے نفسیاتی مسائل کی وجہ بھی بناہوا ہے۔اسی لئے بچوں کی دماغی صحت کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ خود کو قید میں محسوس کررہے ہیں۔اس دوران ہر ممکن حدتک بچوں کو مثبت رکھنے کی کوشش کیجئے۔

اگر وہ کچھ وقت آپ کے ساتھ کھیلنا یاچہل قدمی چاہتے ہیں تو انکار نہ کیجئے۔
6) اکتسابی رجحان پر دھیان دیجئے:
ہر طالب علم اپنے انداز سے سیکھتا ہے اوراس کی اکتسابی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔اس لئے مسلسل غور کرتے رہیں کہ بچے کو کس طرح پڑھایا جائے۔اگر کوئی طریقہ کام نہیں کررہا تو دوسری راہ اختیار کیجئے یعنی ہوم اسکولنگ کو بچے کی ضرورت،اقدار اور طرز زندگی سے ہم آہنگ کیا جائے۔

6) آن لائن مدد حاصل کیجئے:
یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارم پر بہت سے مستند اساتذہ کے لیکچر موجود ہیں جو گھر میں پڑھنے اور پڑھانے کے متعلق ہیں۔آپ ان سے بھی راہنمائی لے سکتے ہیں۔ 
8) تدریس میں سب شامل ہوں:
اگر والدین خود بچے کو پڑھائیں تو اس سے بچوں کاحوسلہ بڑھے گااورآپ خود بھی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں گے۔
9) بچوں کی رائے مقدم رکھیں:
یہ وقت ہے کہ آپ بچوں کے رجحان معلوم کرسکتے ہیں۔ کس مضمون میں وہ کتنی دلچسپی لیتے ہیں، یہ راز بھی آپ پر کھلتا جائے گا۔ گھر یلو تدریس کے پورے عمل میں بچوں سے پوچھے رہیں کہ وہ کیا کچھ سیکھ رہے ہیں اور کسی شے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

lockdown ke doran home schooling ki zaroorat aur tarika car is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 May 2020 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.