سیاسی منافقت اور اسٹبلشمنٹ

اتوار 18 مارچ 2018

Afzal Sayal

افضل سیال

اگر منافقت کا دوسرا نام ہوتا تو وہ “جماعتِ اسلامی” ہوتا۔ مولوی مولوی ہوتاہے چاہے فضل الرحمن ہو یا سراج الحق۔۔ جن کا دین ایمان سیاست صرف ذاتی مفاد اور پیسہ ہے ۔۔ سینٹ کے الیکشن نے بہت سے چہروں سے ماسک کھینچ لیا ہے آپکو یاد ہوگا کہ نواز شریف سمیت پاناما میں جن کے نام آئے تھے انکے خلاف سب سے پہلے جماعت اسلامی نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی تھی ، سراج الحق پاکستان میں عمران خان کے بعد دوسری بڑی آواز تھی جو کرپشن کے خلاف اٹھتی تھی لیکن آج انہوں نے بھی نوازشریف کو ووٹ دیا اور منافقت کی منڈی میں اپنا نام درج کروانے میں کامیاب ٹھہرے ۔

۔۔ اسطرح آپ پیپلز پارٹی کے سینٹ الیکشن میں کردار کی طرف دیکھوں تو زرداری نے بھٹوازم کو دفن کیا اور نوازشریف کے چھانگا مانگا کی پیروری کرتے ہوئے چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 120ووٹ دیگر جماعتوں کے لے اڑے،، پی ٹی آئی نے بھی پنجاب میں ن لیگ کے 6 ممبر پر ہاتھ صاف کیا اور چوہدری سرور سینٹ کی سیٹ لے اڑے ۔

(جاری ہے)

۔ ن لیگ نے خیبر پختوانحواہ میں ہاتھ کی صفائی دکھائی اور دو سینٹر منتخب کروا لیے ۔

۔۔ پھر باری آئی چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب کی جس میں اپوزیشن نے ملکر بلوچستان کے ایک آزاد امیدوار کو سپورٹ کیا اور سینٹ کا الیکشن اپوزیشن جیت گئی ۔۔ اپوزیشن کو اکٹھا کس طاقت نے کیا ۔ جی یہ وہی طاقت تھی جس نے 2013میں نوازشریف کو وزیر اعظم بنایا ۔۔۔۔ سینٹ الیکشن کے دوران ن لیگ کی جانب سے اسٹبلشمنٹ اسٹبلشمنٹ نامی الفاظ کا بہت استعمال ہوا ۔

لیکن ہم ماضی میں نہیں جاتے ن لیگ کی پچھلے پانچ سال سے ملک میں جمہوری حکومت نے کتنے جمہوری فیصلے کیے سوال یہ بھی غور طلب ہے ۔۔۔۔
پاکستان میں اسٹبلشمنٹ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ کیمپ کی مساوات قائم کرکے نواز شریف نے آجکل جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے ان سے پوچھا جائے کہ ،محمود خان اچکزئی،حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمان سے ملکر جو بلوچستان میں 2013 میں حکومت قائم کی تھی کیا وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ نعرے کے ساتھ قائم کی تھی؟؟ جب ایوان میں ن لیگ ترمیم لائی جس کے تحت فوجی عدالتیں قائم کی گئیں تھیں کیا وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ اقدام اٹھایا گیا تھا؟؟
کراچی میں رینجرز اور سندھ کے اندر رینجرز کی تعیناتی پہ جب پاکستان پیپلزپارٹی تحفظات کا اظہار کررہی تھی تو کیا اس وقت مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادی ۔

پیپلزپارٹی کے تحفظات پر جومذمت کر رہے تھے وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ رویہ تھا؟ رینجرز، نیب ، ایف آئی اے اور ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ۔ اگر سندھ ، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان ، کے سیاست دانوں اور بیورکریسی کے خلاف کاروائی اور فیصلے کریں تو اقدام قانون کی بالادستی اور یہی ادارے پنجاب میں فیصلے کریں یا کاروائی کریں جس سے ال شریف اور ان کی پارٹی پہ اثر پڑے تو یہ اینٹی اسٹبلشمنٹ اور غیر جمہوری اقدام ہوجاتا ہے ۔

۔
بلوچستان 2013 کی حکومت میں آج کا چیف منسٹر اس وقت ڈپٹی اسپیکر ،آج کے وزیر داخلہ اس وقت بھی وزیر داخلہ اور آج بلوچستان سے منتخب ہونے والا سینٹر انوار الحق کاکٹر اس وقت ترجمان بلوچستان حکومت تھا کیا یہ سب اینٹی اسٹبلشمنٹ تھے جب ن لیگ نے انکا انتخاب کیا تھا ؟؟؟۔۔ اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کا مطلب ہے کیا ہے ن لیگ کے بیانیے کے مطابق ۔۔

اگر یہ بلوچستان میں جن لوگوں کے ساتھ ملکر حکومت بنائیں تو جمہوریت پسند اوراگر وہی لوگ کسی اور پارٹی سے اشتراک اور تعاون کریں تو اسٹبلشمنٹ نواز ہوجائیں۔ان کی جانب سے 500 ووٹ لینے والا قدوس بزنجو ڈپپٹی سپیکر بنے تو جمہوریت کی بالادستی لیکن چیف منسٹر بنے تو اسٹبلشمنٹ اورانکو آجکل 500 ووٹ بہت یاد آ رہے ہیں لیکن 200 ووٹ لینا والا ڈاکٹر مالک چیف منسٹر بنے تو جمہوریت زندہ باد ۔

۔۔۔ مطلب میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو ۔۔۔۔۔
جب تک نوازشریف کی ذات پر کوئی آنچ نہیں آئی یہ ہر غیر جمہوری کام کا ساتھی رہا ہے اور اسٹبلشمنٹ کی گود آباد کیے رکھی ۔ جیسے ہی شکنجہ میاں صاحب کی جانب بڑھا ہے وہ ساتھ ہی جمہوریت پسند اور اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوگئے ۔۔۔۔۔
اینٹی اسٹبلشمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی کے دعویدار نواز شریف کو بنگلہ دیشی شیخ مجیب الرحمن تو یاد آ جاتا ہے لیکن اپنے ملک میں بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہاتھوں ہزاروں لاپتہ بلوچ نوجوان ، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے کارندے ، شاعر و ادیبوں ، ہزارہ برادری ، شعیہ برادری
ڈیرہ غازی خان میں شعیہ نسل کشی اور پختون بیلٹ کے ساتھ ہونے والے ظلم و بربریت ، اور مسخ شدہ لاشوں پر اس نے ساڑھے چار سال وزیر اعظم ہوتے ہوئے اور اب بھی چپ سادھ رکھی ہے۔

۔۔ پنجاب کے اندر اسقدر جلسے کرنے کے باوجود کسی ایک جلسے میں بھی زبان نہیں کھولی ۔۔۔ بلوچستان پہ پچھلے کئی سالوں سے اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول بارے ایک لفظ انکی زبان سے نہیں نکلا۔۔۔۔
بات کا نچوڑ یہ ہے کہ میاں صاحب کے ساتھی ارکان بغاوت کرجائیں یا اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ میاں صاحب کے اقتدار کی جانب بڑھے ،تو پھر وہ ہارس ٹریڈنگ اور اسٹبلشمنٹ اسٹبلشمنٹ کا شور مچاتے ہیں اور فورا جمہوریت پسند اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں ۔

۔ لیکن اگر اسٹبلشمنٹ لوگوں کو جبری لاپتا کرے، جائز ناجائز فوجی آپریشن کرے، سویلین کو اغواء کرکے ماردیا جائے، دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ختم ہوں انکی ایسی کی تسی پھیر دے یا انکے ارکان کو توڑ کر میاں صاحب کی جماعت کا حصہ بنا دے تو سب جائز اور جمہوری راویات کے عین مطابق ہوتا ہے۔۔۔ قارئین سچ تو یہ ہے کہ اینٹی اسٹبلشمنٹ کیمپ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

پاکستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے اس ملک کی اسٹبلشمنٹ سے کسی معاملے میں "حصہ داری"اور کسی معاملے میں لڑائی کرتے ہیں اور نواز شریف کی حصہ داری میں جہاں جہاں رخنے پڑے ہیں وہ نواز شریف کے ذاتی مفادات کے سبب ہی ہیں۔اس کا کوئی تعلق پارلیمنٹ کی بالادستی یا ووٹ کی عزت سے نہیں ۔۔ جمہوریت کی بالادستی اور ووٹ کی عزت جب تک ہمارے لیڈر خود نہیں کریں گے طاقتور اسٹبلشمنٹ کبھی نہیں کرے گی ۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :