پہاڑی کا قیدی

اتوار 4 اکتوبر 2020

Aisha Abdur Rasheed

عائشہ عبدالرشید

میں انا کی پہاڑی کا ایک قیدی ہوں جس کی دسترس میں نہ زمین کی ٹھنڈک ہے اور نہ آسمان کی وسعت.
قید خانہ پہاڑی کی چوٹی سے ذرا نیچے واقع ہے ، اتنا نیچے کہ نظر زمین کا احاطہ کرنے کے بجاءے نوکیلے پتھروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ آتی ہے. زندان کی چھت صرف اس کے ذہن کے وقار کے مصنوعی خول کی چھت ہے جس کے باعث آسمان نگاہ کی پہنچ سے بہت دور ہے ، گویا انانیت قدرت کی لطافت اور رنگینی سے یکسر نابلد ہے ، اس کے مقدر میں صرف سخت اور نوکیلے پتھر ہیں .

وہ پتھر جو نہ زمین کی ذرخیزی سے استفادہ کر سکتے ہیں اور نہ بارش کے قطرے ان میں زندگی پھونک سکتے ہیں.
قیدی اس بات سے نا آشنا ہے کہ وہ انا کی ایک معمولی، پتھریلی، نوکیلی اور بنجر پہاڑی کا قیدی ہے نہ کہ منکسر امزاجی کے ہمالیہ کی چوٹی کا . وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے بڑے اور اونچے پہاڑ کا اکیلا فاتح ہے جس نے اس کی چوٹی پر جھنڈا گاڑ دیا ہے .

اسے یہ نہیں معلوم کہ جس ننھی سی جگہ پر وہ قید ہے اس کے نیچے اس کی ان محبتوں کا خون ہے جنھیں اس نے اظہار سے قبل انا کے تیر سے چھلنی چھلنی کر دیا، اس کے نیچے ان صداقتوں کی میت ہے جنھیں وہ انا کی آڑ میں زبان پر نہ لاسکا ، اس کے نیچے ان سچے رشتوں کے لباس ہیں جو اس نے وقت پڑنے پر مزین نہ کیے اور اب وہ کفن کا روپ دھار چکے ہیں، اس کے نیچے ان خاکساروں کے جنازے پڑے ہیں جنھیں اس کی موٹی انا نے قبول نہ کیا اور اس کے نیچے اس کی ان مچلتی جواہشات اور تمناءوں کی جون میں لت پت لاشیں گری ہیں جن پہ اس کی انا نے پے در پے وار کیے .
جب اندرونی بنیادیں ہی حشر کا سماں پیش کرتی ہوں تو سطح پر ذرخیزی کہاں سے آءے؟ سلاخوں کے پیچھے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھ بقیہ ماندہ زندہ لاشوں کو کس طرح عاجزی کا امرت پلائں ؟ بیڑیوں میں مقید پاءوں کس طرح انسانیت کی معراج کا سفر طے کریں؟ گردن میں پڑے بھاری بھرکم طوق سے آذادی.

کس طرح ممکن ہو؟ آنکھوں پہ بندھی خود پسندی کی پٹی سے ارض وسما کس طرح نظر آئں ؟ کہ آسمان کے لیے تو وسعت نظرکی ضرورت ہے اور زمین کے لیے وسعت قلبی کےساتھ ساتھ زمینی صفات کی.
قیدی کی انانیت کی زنجیروں کا حصار اس کے گرد اس قدر تنگ ہے کہ وہ محبت و خلوص جیسی ہر شے کے لطف سے ناواقف ہے.اس کی لذت اس کے قید خانے تک محدود ہے جس کے قفل کا توڑ خود اس کے پاس ہے مگر اسے یہ آذادی منظور نہیں کیوں کہ سلاخوں، ہتھ کڑیوں، بیڑیوں اور طوق کی چابی ایک ہی اس کی انا کی چابی ہے �

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :