موجودہ دور میں داستان نگاری کا چلن کیوں باقی نہیں رہا ؟؟

بدھ 3 فروری 2021

Aisha Abdur Rasheed

عائشہ عبدالرشید

زمانے کی تیز رفتاری نے داستان کی مقبولیت کی رفتار کو آہستہ کر دیا ہے ۔ ابتداء میں جب وقت رینگ رینگ کر چلتا تھا داستان اپنے قدموں پر دوڑتی تھی، پھر اس کی رفتار کم ہوئ اور یہ آہستہ آہستہ قدم بھرنے لگی ___ وقت کی تیز رفتاری میں مزید اضافے کے بعد یہ گٹھنوں کے بل چلنے لگی ، پھر وہ عہد بھی آیا کہ یہ محض رینگنے لگی ___ اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ تھک ہار کر رک گئ ہے ۔

گویا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ داستان اور زمانہ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔  ایک کی آہستہ خرامی سے دوسرے کی دوڑ مشروط ہے۔ تاریخ کے صفحات کے مطابق دونوں میں مصالحت و مفاہمت کسی طور باقی نہیں رہی۔  آج کے انسان کی جدت پسند طبیعت' جو اس کی فکری حیات کی ضامن ہے، اس نے داستان کو موت کی نیند سلا دیا ہے ۔

(جاری ہے)

اس نے بڑی ہوشیاری سے کام لے کر داستان سے اس کی تاریخی مقبولیت کا انتقام لیا ہے۔

اس نے انسان کو یہ مہلت ہی نہیں دی کہ وہ داستان کے ادھ موئے وجود کو زندگی کی جانب واپس لانے کی جدوجہد کرئے،  اسے آب حیات پلائے،  اس کے زخموں پر مرہم رکھے ، اس کا علاج معالجہ کرے یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی میت پر فاتحہ پڑھے اور اس کی قبر پر پھول چڑھائے ۔
اس کے علاوہ بھی جدیدیت نے داستان سے انتقام کی کچھ چالیں چلی ہیں۔ اس نے انسان کو مصروفیت کے پھندے میں اس قدر جکڑ دیا کہ اس کی حس لطافت کو داستان سے استفادے کا موقع ہی نہ ملا۔


مزیدبرآں جدیدیت نے داستان کے متبادل،  انسانی تفریح کے واسطے بہت سی دوسری چیزوں کو متعارف کروایا جو فارغ اوقات میں اس کا دل بہلا سکیں ۔ اس نے کھیل، تفتیحی پروگرام ، موبائل فون ، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن جیسی دوسری اشیاء فراہم کیں چناں چہ ان کی موجودگی داستان کے وجود کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئ۔  
داستان کا وجود جو تخیل اور مافوق الفطرت عناصر سے انسان کا دل لبھاتا تھا' اس کے ذوق کو تسکین بخشتا تھا اور اس کے ذہن کو غم دوراں سے وقتی نجات دلاتا تھا،  جدیدیت نے اس کا بدلہ یوں لیا کہ اس کے آراستہ وجود سے تخیل اور مافوق الفطرت عناصر کے زیورات نوچ ڈالے اور انسان کے ذہن کو حقیقت پسندی اور عقل کا غلام کر دیا ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے داستان کو حقیقت پسندی کے عوض فروخت کر ڈالا۔
دوسری جانب اگر داستان کی فضا کی بات کریں تو وہاں جو کچھ ناقابل یقین ہے جس سے لطف اندوز ہونے کا نسخہ کولرج کے نزدیک یہ ہے کہ : " ذرا دیر کو اپنی خوشی سے بے یقینی کو بالائے طاق رکھ دیں۔ " ہم نے اس نسخے میں جدیدیت کی چال کو نہ سمجھتے ہوئے اس طرح ردوبدل کیا کہ: " بہت دیر کے لیے اپنے یقین سے اپنی خوشی کو بالائے باق رکھ دیا"۔


الغرض داستان کے اس قتل کے پیچھے جدیدیت یعنی اس کی تیز رفتاری، اس کی حقیقت پسندی ، اس کی محرومیوں ، اس کی مجبوریوں ، اس کے انتقام اور اس کی خواہش دوام کا ہاتھ ہے ۔
میں عدالت میں داستان کے وکیل کے طور پر موجودہ عہد کے انسانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہوں کہ وہ جدیدیت کے خلاف یہ مقدمہ لڑیں اور عدالت سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے داستان کو اپنے ہی وجود کے ٹکڑے کی ضرب یعنی تخیل اور مافوق الفطرت عناصر سے زندہ کر دیں ۔

میں جج سے درخواست گزار ہوں کہ وہ جدیدیت کو یہ فیصلہ سنا دے کہ اسے کسی طور بھی زبان و ادب کے قدیم سرمائے اور افتخار کو ختم کرنے کی قطعاً اجازت نہیں اور داستان کے خیر خواہوں یعنی ادیبوں کو یہ حکم دے کہ وہ آئندہ دنوں میں اس کی بھر پور حفاظت کے ساتھ ساتھ اسے دوبارہ زندگی کی جانب واپس لانے کی کوشش کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :