2 نیلی جھیلوں کی کہانی۔ایک چرواہا صحافی کی زبانی

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Akram Baltistani

اکرم بلتستانی

گاوں کے بڑے اور بزرگ  بچپن میں ہمیں  شوق سے جو    کہانیاں سناتے  تھے ان میں سے دلچسپ شکار اور ان کے چرواہٹی  دور  کے قصے ہوتے تھے کہانی سنانے سے پہلے ایک لمبی سانس لیتے  اور ان کے آنکھوں میں کئی کتابیں کھل جاتی تھی۔
سو ایسے ہی  ایک  کتاب کے چند صفحے کے مانند کچھ قصے میرے  دل میں بھی اور یادوں میں بھی محفوظ تھے تو سوچا کچھ یاد دہانی ہوجایں ۔

۔
میں  نے بھی دنیا میں آنکھ پہاڑوں کی اغوش میں کھولا ہے شکر ہے خدا کا یہ خطہ جو کی نہ صرف   قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکی جغرافیائی لحاظ سے بھی دنیا میں اس خطہ کو  منفرد مقام حاصل ہے
اگلے سال جب پہاڑوں پر برف بھاری شروع ہوجاے گا دریاوں کے بہاو میں کمی اجایگی ۔ خزاں کے زرد پتے گرنے شروع ہوجاینگے    تو ہم بھی زندگی کے 25 برس کے ہوجاینگے ۔

(جاری ہے)


خیر زندگی کے یہ سلسلہ جب تک سانسیں ہے جاری رہے گا
چلئے اپ کو اج سیاحوں کے نظروں سے اوجهل  بلتستان کے خوبصورت وادی طورمک کے  دو خوبصورت ۔ نیلی جھیلوں ۔ اور دور دراز علاقوں کے  رہن سہن ثقافت  اور یہاں کی  خوبصورتی  کے  حوالے سے اپ سے کچھ گفتگو کرتے ہیں
سکردو اور گلگت کے درمیانی علاقہ روندو کے خوبصورت ویلی طورمک ویلی  جو kkh سے 1 گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔

یہاں کے بہت سے بروق خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال اپ ہے ۔ یہاں کے مہشور سیاحتی مقامات میں -  2 خوبصورت نیلی جھیلیں-" نقپو رزینگبو جھیل "- اور ' "خلرزنگ جھیل" -  ۔دنسہ بروق ۔گرم چشمہ ۔بلکر چوٹی ۔اور وادی کے بھیجوں بھیج خوبصورت پولو گراؤنڈ ہے ۔اس کے علاوہ وسیع و عریض  گلیشیر دریا ۔ندی نالے ۔تصوراتی دنیا سے حسین منظر پیش کرتی ہے ۔
یہ  علاقہ قدرتی نظاروں اور معدنیات سے مالا مال ہے یہاں تک پہنچنے کیلئے دشوار راستوں کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ۔

۔
حکومت اس سیاحتی مقامات تک کے  رسائی کیلئے  سڑک کی تعمیر کرائے تو یہ بھی پاکستان کے بڑے سیاحتی مقامات میں شامل ہوسکتے ہیں ۔۔
بلتستان کے اکثر علاقوں کی بات کی جائے تو ان کے  رہن سہن اور ثقافت کے حوالے سے اہم  انحصار یہاں کے  موسم کے اوپر ہوتے ہیں ۔
یہاں کے باسی تین جگہوں پر  سال کے خوبصورت وقت گزارتے ہیں ۔جو کی علاقائی زبان میں بروق کے نام سے پکارا جاتا ہے  ۔

موسم بہار اور موسم گرما کے 5 مہینے اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ   بروق پر اپنا وقت گزارتے ہیں اور دیسی گندم وغیرہ کی فصلیں بھی کاشت کرتے ہیں ۔
اور سردیوں کیلئے لکڑی اور مال مویشیوں کیلئے چارے  وغیرہ کا انتظام  کرتے ہیں ۔
میں آپ کو ایک خوبصورت بروق کی سیر کرانے جارہا ہوں جو کی طورمک بلتستان کے ایک خوبصورت بروق - ژرگونما۔جو کی یہاں ہمارے داداوں نے اپنی زندگیاں گزار دی ۔

اور ہم نے اپنی بچپن کے کچھ خوبصورت لمحے ۔ان لمحوں کی یادوں میں اج بھی گم ہوتا ہوں ۔
جب بھی گاؤں جانا ہوتا ہے  اس بھاگتی دوڑتی زندگی  سے ذرا بھی چھٹی مل جاتے ہیں  تو اپنے مٹی اور اپنے لوگوں میں کچھ دن گزارنے کا وقت مل جاتا ہے  ۔ یادوں کو تازہ کرنے کوئی ساتھ ہو نہ ہو اکیلے نکل پڑھتا ہوں ۔
خیر ان سے ملئے یہ ہے ہمارے بروق کے ایک باسی جس کو ہم مامو علی خان کے نام سے پکارتے ہیں ۔

اور زیر  تصویر میں ان کے ساتھ جو دوسرا چچا حاجی محمد دونوں نے اپنے زندگی کے جوانی فوج میں گزارنے کے بعد اب پہاڑوں کی انگن میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ہمراہ خوشگوار زندگی گزار رہا ۔
میں بھی کچھ عرصہ کراچی رہ کر گاوں پہنچ گیا تھا اگلے دو دن بعد  بروق کیلئے نکل گئے وہاں پہنچا تو معلوم ہوا   کی صبح ہمارا گائے بھینسیں   چرانے   کی باری ہے ۔

۔
تھکن کے باوجود رضا مندی ظاہر کرلی اور سورج ڈھلنے لگا اور سورج ڈھوبنے کا منظر یاک کے بالوں سے بنے نمدے جیسے مقامی زبان میں - چھرہ -کہتے ہیں اس پر بیٹھ کر   چائی کا مگ لے کر شام کو الوداع کیا ۔
تو بس صبح کی پلاننگ رات کو بنا دی اور رات کے سناٹا اتنا گہرا ہوا کی چلتی  دھڑکنیں سنائی دیں
لو جی صبح ہوگئی پرندوں کی چہچہاہٹ ور بھیڑ بکریوں کی قہقہاوں نے نیند میں خلل ڈال دی اور آنکھیں کھل گئی
فجر پڑھی ۔

ایک کپ دیسی جڑی بوٹیوں میں ملاوٹ قاہوہ  پی کر رخت سفر باندھی ۔
کراچی کے موسم کے عادی ہوچکا تھا صبح صبح سردی بھی محسوس ہورہی تھی ۔
خیر ایک ڈھنڈا ہاتھ میں  لیا اور روانہ ہوگئے چچا محمد اور مامو علی خان بھی ہمسفر تھے نالوں چشموں سے کافی عرصے بعد پہلی بار مل رہے تھے شکر کرتے ہوئے میرا یاداشت  ماضی کے کچھ تصویروں میں گم ہوگے تھے
ہم تینوں  گائے  بھینسوں سے باتیں کرتے ہوئے کافی سفر طے کرچکے تھے ۔


میں باتوں باتوں میں یہ کوشش میں لگے رہے کی ان سے یہاں کے جگہوں کے اہمیت کے حوالے سے اور ان کے  زندگی کے تجربات کے  حوالے سے   جو نظریہ ہے  وہ سمجھ لوں اور ان کے خوش مزاجی  کو محسوس کرسکوں بس چلتا رہا
اتنے میں مامو علی خان کی آواز آئی  روکو روکو یہ فصلیں خراب کرنے جاتے ہیں جانے نہیں دینا
کچھ آوارہ  گائوں  کو عادت سی ہوگی تھی باگ کر پلٹتے اور نیچے اکر اپنے بچوں  کے ساتھ فصلوں میں گھس جاتے ہم دونوں نے بڑے مشکل سے روکا اور ہم ایک چشمے پر پہنچ گیا پیاس تو نہیں تھی پھر بھی میں نے  پانی کا لطف لیا
سگریٹ نوشی تو کرتے نہیں تھے تو میرے جیب میں کچھ ٹافی اور چنگم تھے
میں نے جب دونوں کو پیشکش کی تو جواب آیا کراچی سے یہ لیکر آے ہو - اور چچا محمد نے  اپنی جیب سے دیسی نسوار نکال کر مجھے افر کی یوں ہم تینوں نے قہقوں میں اپنے سفر ایک خوبصورت جھیل ۔

"نقپو رضینگبو "۔ کے قریب تک کا سفر  طے کیا ۔
وہ دونوں اب  اپنے معمول کے مطابق  ہمیں اور بھینسوں  کو الوداع کرکے واپس پلٹے
ہم لوگ  - نقپو رضینگبو - جھیل کے قریب پہنچ چکے تھے جو کی ہمارا پہلا منزل تھا  ۔
سورج کی کرنیں بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے  جھیل کے پس منظر میں خوبصورت چوٹی پر سورج کے کرنیں چھونے لگا تو  بڑا دل فریب منظر پیش کرنے لگا
پانی کی سڑ سڑاہٹ سے اٹھنے والی میٹھی  آواز کانوں میں گونجنے لگی تھی
ہمارے استقبال کیلئے گاۓ بھینسوں کے بڑی تعداد  جھیل کے کنارے منتظر تھے ہم اپنی پہلی منزل - نقپو رزینگبو- جھیل پر اب  پہنچ چکے تھے ۔


میں کچھ دیر جھکا ہوا  جھیل میں دیکھتا رہا وحشتوں کی طرح کچھ دیر اس کی گہرائی میں کھویا رہا جیسے میرے زندگی کا ایک لمحہ جو  کھو گیا تھا وہ پھر سے لوٹ آیا ہو ۔
اتنے میں کزن کی آواز آئی  وہ دیکھو کنارے پہ  خوبصورت پرندہ تصویر لو جلدی
اتنے میں آنکھیں پلٹ کر دیکھا تو پرندہ نے  بھی اپنی جگہ چھوڑ کر آسمان کی طرف اڑان بھری ایسا محسوس ہوا وہ ہماری باتوں سے ناراض ہوا ہو ۔


اس جھیل کے ارد گرد خوبصورت اور سرسبز  گھاس ہونے کی وجہ سے اس جھیل کے کناروں پر  ہر وقت جانور گھاس سے لطف اندوز ہوتے نظر آینگے
یہ  جھیل مکمل طور پر سرسبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور اس جھیل کے بہتا ہوا پانی نیچے چشموں سے ملتے ہوئے گیت گاتے ہوئے   بروق کے بہت سے آبادیوں  کو سیراب کرتی ہے۔
ہم کافی دیر یہاں کے حسین اور خوبصورت نظاروں  پر اپنا رسم عکسبندی جاری رکھا کچھ گاۓ اور بھینسوں کے ساتھ مسکراہٹیں شئیر کی انہوں نے دل کھول کر ہمیں پوز دئے ۔


آخر کار میں اور  کزن کچھ خوبصورت لمحے گزارنے کے بعد اپنی دوسری منزل  - (خلرزنگ جھیل) -خلار- جو کی مقامی زبان میں مارخور کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے اس جھیل کا نام بھی اس نام  سے منسوب ہے  ۔ ہم نے بھی اب اپنی دوسری منزل  کی طرف رخت سفر باندی جو کی پہلے  جھیل سے 2 گھنٹے کی مسافت پر تھی  ۔
منزل کی طرح راستے بھی بہت خوبصورت تھے۔بادلوں سے باتیں کرتے چوٹیاں ۔

چھوٹی چھوٹی سرسبز میدانیں  بڑے پتھروں لمبے لمبے گھاس جڑی بوٹیوں اور رنگ برنگے کھلے  ہوئے  پھولوں کی خوشبووں سے  سے گزر کر ہم اپنی دوسری منزل کے قریب پہنچ گئے
حد نگاہ سے  ہمیں جھیل کے کنارے ایک چرواہا اور ایک بڑی بھیڑ بکریوں کی ریوڑ جو کی جھیل کو اپنی حصار میں لیا ہوا تھا ہماری نظر جب اس خوبصورت منظر پر پڑھا تو بے چینیاں اور بڑھنے لگی ۔

۔
میں اور کزن اس حٙسین منظر کو نزدیک سے  اپنی آنکھوں اور  کیمرے کی آنکھوں میں قید کرنا چاہ رہے تھے ۔۔
لو ہم  کچھ قدم اگے بڑ کر ایک بلند مقام سے چرواہے کو چرواہے کی زبان میں بلند آواز میں  چلا چلا کر  آوازیں دینا شروع کی   پہاڑوں  کی چٹانوں سے اوازیں ٹکرا کر  پورے وادی میں آوازیں گونج رہی تھی
چرواہے تک ہماری آواز پہنچ گئی اس نے بھی ہمیں اسی انداز میں جواب دی اس کی گونجتی آوز سے محسوس ہوا کی اب ہم منزل پر پہنچ چکے ہیں ۔


اور یوں ہم اب جھیل کے  کنارے ایک خوبصورت چوٹی پر پہنچ گئے جس سے پورا جھیل کا  اب نظارہ کرسکتے تھے ۔
بھیڑ بکریوں نے اس طرح  سے جھیل کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا ۔ اور منظر اس طرح  کا پیش کرہا تھا جھیل کا ۔  جیسے ایک دولہن کو  اپنی سہلیاں اور دوستوں نے نے گھیر  رکھا ہو ۔
اور میرا کفییت  اُس دولہے  جیسا  ہوا  تھا  جس نے  اپنی دولہن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رکھی ہو اس طرح  میری  آنکھیں جھیل پر مرکوذ ہوچکی تھی ۔


اتنے میں چچا چرواہے نے آواز دی  یوں چرواہا اور اور اس کے  ریوڑ نے ہمارا استقبال کی اور ہم جھیل کے ب کنارے پر  پھولوں سے لدے خوبصورت چھوٹے سرسبز میدان میں کچھ دیر کیلئے چرواہے کے ساتھ  پناہ ڈال دی
تعارف ہوا تو پتہ چلا  چاچا داسو گاوں کا رہنے والے   تھے چچا کے ہاتھ میں مختلف قسم کے پھولیں اور جڑی بوٹیاں بھی موجود تھی ۔
کچھ دیر چاچا سے محو گفتگو رہی مجھے معلوم تھا یہاں کے ہر چرواہا اپنے ساتھ طعام کیلئے دیسی ۔

فروث - ضرور لاتے ہیں ۔۔
جو کی شہروں میں اج تک میں نے  نہیں دیکھا ۔
اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے جب دودھ دہی کی شکل اختیار کرتے ہیں تو  ملائی کے ساتھ  اسے دیسی گھی تیار کرنے کیلئے  ایک بھیڑ یا  بکری کے سوکھا ہوا  کھال میں ڈال کر 1 گھنٹہ ہلاتے رہتے ہیں تب دیسی گھی تیار ہوجاتے ہیں ۔اس کھال کو مقامی زبان میں-  شینکیل- کہتے ہیں ۔۔
گھی نکلنے کے بعد جو دودھ کی شکل میں کھٹا اور گھاڑا لسی جس کو بڑے برتن میں کافی ٹائم پکاتے ہیں اس سے
پھر دیسی - فروث - تیار ہوجاتے ہیں ۔


تو میرا شبہ سچ ظاہر ہوا چاچا کے اصرار کئے بنا ہم نے خواہش ظاہر کی
چاچا مسکراتی لبوں سے یہاں کے ثقافتی شال جس کو مقامی زبان میں - قار - کہتے ہیں جو کی پرانے زمانے کے لکڑی کے بنے ہوئے مشین سے تیار ہوتے ہیں ۔ اس میں لپٹے کچھ پھل اور - فروث-  ہمارے سامنے رکھ دئے ۔
بس یوں اس خوبصورت جھیل پر زندگی کے خوبصورت لنچ کے لئے ہم تیار ہوئے ۔


طعام سے فارغ ہوا مختصر وقت میں چاچا سے بہت کچھ جاننے کو ملا۔ جو کی  چاچا اس وادی کے چبہ چبہ سے واقف تھے ۔اور اپنے ماضی کے بھی کچھ خوبصورت یاداشت بھی ہم سے شئیر کی ۔۔
سو ہم نے اس موقع کو ضائع کئے بنا اس خوبصورت لمحے کو اپنی کیمرے کی آنکھوں میں قید کرنا شروع کی  توچاچا اپنے چرواہٹی آواز میں کسی کو بلانے لگے اتنے میں چاچا کے پاس ایک خوبصورت بکرا جو کی اپنی مستی میں دم ہلاتے ہوئے زبان میں انگڑاییاں لیتے ہوئے ایسے منظر پیش کرہا تھا جیسے ایک نخرے باذ  لڑکی چنگم چباتے ہوئے اپنے بوائی فرنڈ کے قریب ارہے ہو ۔


دونوں کی خواہش اور جذبات کو دیکھ کر میں اور  میرا کیمرہ دھنگ رہ گیا جس سے بے ساختہ ایسے تصویریں قید ہوئی جس کا اندازہ اپ تصویروں سے لگا سکتے ہیں  ۔
اس کے بعد بکرا سر ہلاتے ہوئے جھیل کے کناروں میں کھلے پھولوں سے باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ہمیں جھیل پر گھمانے لگے ہم  نے بھی جھیل کے گرد تھوڑی دیر بکرے کے ساتھ آوارہ گردی کی یوں  چند قدم چلنے کے بعد بکرا اپنی گرل فرنڈ کے پاس پہنچ گئے اور سر ہلا کر ہم کو خیرباد کہ دی ۔


بکرے کی اس حرکت سے یہ محسوس ہوا ایسے جگہوں پر آئیڈیل کا ساتھ ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا بس  دل کو  بہلایا  یہ احساس  ہوا ان بھیڑ بکریوں کی  آپس میں آنکھ مچولی فطرت کی ساز اور فطرت کی آواز پریشانیوں اور غموں میں دھنسی انسانیت کو یہ پیغام دے رہے تھے کی آپس میں محبت سے جینا  ہم سے سیکھو ۔۔
اس جھیل کے کنارے سر اٹھاے ہوئے خوبصورت پھولیں اس جھیل کے حُسن کو مزید نکھار رہے تھے
اس پانی کا کوئی منبع نہیں اس کا پانی خود ہی اندرونی کسی چشمے کے مانند کوئی وسیلے سے نکلتے ہیں اس میں باہر سے کوئی چشمہ یہ نالہ نہیں اترتا
سرسبز چٹانوں کے بھیج یہ نیلی رنگ کا لباس زیب تن جھیل کے مناظر دنیا میں ایک سحر انگیز جنت سے مشابہ کروں تو غلط نہیں ہوگا
یہ جھیل انتہائی گہرے نیلے اور شفاف صاف پانی کے  لحاظ سے بھی اپنی مثال اپ تھے
وہ گہری نیلی پانی جن میں میرے بچپن کی خوشیاں اور مستقبل کی ویرانیاں تیرتی ہوئی مجھے نظر آرہی تھی ۔

۔
اس کی چھوٹی چھوٹی موجیں جو تڑپتی تھی اوچھلتی تھی اور پھر سو جاتی تھی جیسے انسانوں کے جذبات کے مانند ۔
سورج کی شعاوں میں نہاتے  رنگین قطرے جو جمع ہوکر جھیل میں گر جاتے اور نۓ لہریں بن جاتے تھے
اس جھیل کو جو خوبصورت سرسبز پہاڑ جس نے اپنے اغوش لیا ہوا ہے  اس کو مقامی زبان میں۔ لاء ۔کہتے ہیں جس کے معنی ہے بارڈر ۔
اس  پہاڑ کے ٹاپ  طورمک بروق  اور تھوار بروق کا بارڈر ہے
اس پہاڑ  کے  ٹاپ سے اگر دوسری سائیڈ کا  نظارہ کریں تو آپ کو روندو کے بہت سے علاقے تھوار ۔

ڈمبوآس ۔شود ۔مندی ۔بلامک ۔ہارده ۔ننوشر ۔ کے علاقوں کا نظارہ کر سکیں گے ۔
     ۔اور KKH پر گھاڑیاں ایسے نظر آینگے جیسے  حد نگاہ سے کسی چیونٹی گزر ہو رہا ہو ۔
بس ہمارا کافی وقت یہاں گزر چکا تھا دیر ہوجاتا تو رات دیر واپس  بروق پر پہنچتے
بس  ہم نے جھیل ریوڑ اور  چاچا سے الوداع کی اور یوں ہم نے  اس خوبصورت لمحے کو یاداشت میں بسا کر زیر احسان کردی
واپسی کا ٹریک آسان تھا زیادہ اترائی پر تھا اس لئے ہم  کم وقت میں کافی راستہ طے کر چکے تھے تھکن بھی محسوس کررہے تھے
تینوں مقامی چرواہوں کی جو الفاظ تھے ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں بیان کروں تو تضاد ہوگا بس محسوس یہ ہوا بہت سے لوگ ایسے ہے نہ کسی امیر سے متاثر ہوتے ہیں نہ کسی غریب سے نہ کسی کوٹھی والے سے نہ کسی پراڈو والے سے
بس یہ اپنی ہی بادشاہی میں جینا سیکھ جاتے ہیں اور خوشحال رہتے ہیں ۔

۔
ہم بروق پر پہنچنے ہی والے  تھے کی راستے میں میری نظر  ایک گاۓ اور اس کا بچہ پر پڑھا یہ وہی ہمارے گاۓ تھے  جیسے ہم صبح ساتھ لے کر گئے تھے شاید یہ  ہمارے واپسی کے  منتظر تھے قریب پہنچتے ہی ہم بے اختیار مسکرائے تو گاۓ اور اس کے بچے کا مسکراہٹ بھی بہت دل کش تھے ۔
انہیں مسکراہٹوں کے بھیج ہمارے ساری  تھکن اتر گئے بس  اب گاۓ کے بچے ہمارے ساتھ کھیلتے ہوئے ۔کودتے ہوئے ۔اچھلتے ہوئے گن گاتے ہو  اس ٹریک کے آخری  منزل تک لے آیا ۔۔
اور یوں ہماری ایک دن کے خوبصورت ٹریک کا اختتام پزیر ہوا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :