
بس ڈرائیورکے تین بچے
جمعہ 4 مئی 2018

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی
با رے میں با ت کر نا چا ہتا ہوں ۔ ان کی وزارت کی اہمیت کے متعلق سر سری ذکر کر تا چلو ں کہ خفیہ ایجنسی ایم آئی فا ئیو ، ہو م آفس ، امیگریشن کا محکمہ ، اس کے علاوہ انگلینڈ اور ویلز کی پو لیس بھی وزیر داخلہ کے ما تحت کا م کر تی ہے۔ موجودہ برٹش وزیر اعظم بھی پہلے وزیر داخلہ تھیں ۔ نصف صدی قبل جب پنجاب کے علا قے سا ہیوال سے
سا جد جا وید کے والد ترک وطن کر کے بسلسلہ روزگار بر طانیہ پہنچے تو ایک طویل عرصے تک وہ وہا ں بس ڈرائیور ی کر تے رہے ۔
(جاری ہے)
ان کی والدہ کا تذکر ہ بھی کر تا چلوں ، 1969 ء میں ساجد جا وید کی پیدائش ہو ئی ، اس سے پہلے اور بعد بھی ان کی والد ہ کپڑوں کا اسٹال لگا یا کر تی تھی ۔ حالانکہ وہ پانچ بہن بھا ئی تھے۔انگلینڈ میں اسٹال سے مراد کو ئی فینسی دکا ن مت سمجھ لیجئے گا ۔ یہ بالکل ویسا ہی منظر ہو تا ہے جئسے پاکستان میں با زاروں کے ارد گرد
فٹ پا تھ پر لگے اسٹالوں کا نظر آتا ہے ۔ بہت مشقت والا کام ہے با لخصو ص جب مو سم خراب ہو تا ہے ۔ میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ ایسے محنت کش والدین کا کو ئی بچہ کیا پاکستان میں بھی وزیر داخلہ بن سکتا ہے ؟ اگر ایسا نہیں ، تو پھر اس کی وجہ کیا ہے ؟ نظام حکو مت تو ہما رے ہا ں بھی وہی ہے جو برطانیہ عظمی میں رائج ہے ۔
پا رلیمانی طرز جمہو ریت ایک اور پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا صا دق خان آج کل لندن شہر کا میئر ہے ہمیں سو چنا چا ہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک پا کستا نی بس ڈرائیور کا بیٹا لندن کا مئیر تو بن سکتا ہے مگر لا ہور کا مئیر بننے کا بس ڈرئیور کا بچہ سو چ بھی نہیں سکتا ۔ ہما ری جمہوری اور آمرانہ حکومتیں ایک ہی صف میں کھڑی نطر آئیں گی اس با ب کے اندر ۔پاکستان میں حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ الگ الگ ہے۔
ایچی سن کا لج لا ہور کے سا بق پرنسپل نے ایک با ر کہا تھا کہ چا ہے جو بھی حکومت بن جا ئے ۔ کا بینہ کا آدھے سے زائد اراکین میرے کا لج کے فا رغ التحصیل طلبہ ہی ہو ں گے۔ با ت تو مو صوف نے سچ کہی مگر یہ کو ئی قا بل فخر با ت نہیں ہے ، قا بل افسو س اور لمحہ فکریہ ہے۔ پا کستان کو اس حال تک پہنچا نے کے ذمہ دار مذکو رہ پر نسپل کے نا خلف طلبا ء ہی ہیں۔ کا بینہ کی با ت چلی ہے تو مجھے برطا نوی دارالا مراء اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون رکن سعیدہ وارثی یادآگئی ہے۔اتفاق ایساہے کہ پاکستانی نژاد اس خا تون کے والد محترم بھی بس ڈرائیور تھے۔ یا د رہے کہ سعیدہ وارثی برونس ہیں اور حکمران ٹوری پا رٹی کی سربراہ بھی رہی ہیں ۔ کیا پاکستان میں کو ی بس ڈرائیور یا اس کی بیٹی یہ خواب بھی دیکھ سکتی ہے کہ وہ کبھی حکمران جما عت کی سربراہ بنے یا پھر کا بینہ کی معزز رکن؟
ظاہر ہے یہ سب موجودہ حالت میں ہو نا مشکل نظر آتا ہے ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانی بس ڈرائیوروں کے بچے بر طا نیہ میں جا کر اعلی ترین حکومتی عہدوں پر پہنچ سکتے ہیں تو یہ پاک سرزمین پر بھی ممکن ہے ۔ برطا نیہ تو پر ایا دیس ہے ، پاکستان تو ان محنت کشوں کا اپنا دیس ہے ۔ اپنی دھر تی پر تو ہو نہا ر بچوں کی ترقی کا سفر اور زیادہ آسان ہو نا چا ئیے ۔ پچھلے دنوں سا بق برطا نو ی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو سا جد جا وید کے با رے میں یہ کہتے سنا گیاکہ وہ بر طانیہ عظمی کے وزیراعظم بنا نے کے قا بل ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ ، یا کسی اور محنت کش پاکستانی کا بچہ بر طا نیہ کا وزیر اعظم بن جا ئے ، سوال مگر یہ ہے کہ ہمار ے اپنے ملک میں ایسا ممکن کیو ں نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ کسی مزدور ، کسان ، مزارع دھو بی ، نائی ، قصا ئی ، تیلی،موچی کا بچہ ہما رے ملک میں ایوان اقتدار پر چا ہے جتنی بھی مضبو ط ہے ، مگر ووٹ کی پر چی تو انہیں ہم اور آپ ہی دیتے ہیں ۔ مقتدرحلقوں سے شکو ے، شکا یا ت اپنی جہ وزن رکھتی ہیں مگرہم عوام بھی تو اپنی سو چ کی سمت درست کر یں ، اپنے جیسے لو گو ں کو منتخب کر کے اقتدارسو نپ کر دیکھیں ، اگر پا کستانی بس ڈرائیور کا بیٹا مئیر کی حیثیت سے دنیا کے اقتصادی مرکز لندن کا نظام چلا سکتا ہے تو پھر لا ہور کا نطم و نسق بھی کسی محنت کش کے با صلا حیت بچے کو چلا نے کا مو قع دے کر تو دیکھیں ، انشا ء اللہ بہتری آئے گی ۔ پا کستانی بس ڈرائیور کی بیٹی اگر بر طا نوی حکمران جما عت کو کا میا بی سے چلا سکتی
ہے تو پا کستا نی سیا ست میں بھی ایسا ممکن ہے ۔ پاکستان میں عا م انتخا با ت کی آمد آمد ہے مسا ئل زدہ لوگو ں کے مسائل تبھی حل ہو ں گے جب وہ اپنے طبقے کے اندر سے فیا دت فراہم کریں گے ۔اگر برطانیہ جیسے سات سمندرپارملک میں پاکستانی محنت کشوں کے بچے اچھی قیادت فراہم کرسکتے ہیں تو پھر پاکستا ن میں کیو ں نہیں؟ یقینا ایسا ممکن ہے ۔ محنت کش کی اصل نما ئندگی محنت کش ہی کر سکتا ہے ، کو ئی جا گیر دار یا سرمایہ دار ایسا نہیں کر سکتا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی کے کالمز
-
منو بھائی کی یادیں اور باتیں
جمعہ 21 جنوری 2022
-
کس برہمن نے کہا تھا یہ سال اچھا ہے
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ٹیکنالوجی کے کرشمے
منگل 4 جنوری 2022
-
ایڈیسن دیوتا
منگل 14 دسمبر 2021
-
نئی سحر کی امید
بدھ 1 دسمبر 2021
-
یومِ اقبال اور جاپان
جمعہ 5 نومبر 2021
-
اس کے بغیرآج بہت جی اداس ہے
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
میاں میررحمہ اللہ علیہ کاعرس اورحساس تقرری
جمعرات 21 اکتوبر 2021
مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.