والدین بے خبر ہیں

منگل 13 نومبر 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

ماں باپ کو کوئی خبرنہیں ہے۔یہ اعلان نمابیان کسی نگری کا نام بھی ہوسکتا ہے۔اور نگر بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکونے اسے عالمی ورثہ قراردے رکھاہے۔میں جاپان کے عین وسط میں واقع ”اویاشی رازو“شہرکا تذکرہ کررہا ہوں۔فطرتی حسن سے مالامال یہ خطہ زمین ارض وسماء سے ماورا معلوم ہوتا ہے۔ہماری دھرتی کا حصہ تو بالکل معلوم نہیں پڑتا۔

یوں گماں ہوتا ہے کسی اور ہی سیارے پر آگئے ہیں۔یہ ایک ایسا اسا طیری شہر ہے۔سمندر کے کنارے بلندوبالاچٹانوں کے درمیان ایک چوٹی پر ٹھیک پچاس سال ایک پارک تعمیرکیاگیاتھا۔آپ اسے ”درشن باغ “کہہ سکتے ہیں۔دوردرازسے آئے سیاح اس چھوٹے سے پارک میں کھڑے ہوکر قدرت کے اس شاہکار کانظارہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جاپان کی سب سے بلند چٹان اپنے پورے شکوہ کے ساتھ ایستادہ یہاں سے سامنے نظرآتی ہے۔


والدین نہیں جانتے ہیں نامی اس علاقے کانام کیسے پڑا؟یہ ایک تاریخی واقعہ اوردرد ناک کہانی ہے۔قصہ بارہویں صدی عیسوی کا ہے،مگرہزار سال گزرنے کا باوجودآج بھی موجودہے۔ایک جنگجوسرداراپنے مخالف قبیلے سے لڑتے ہوئے جنگ ہار گیا۔اس تاریخی معرکے میں متذکرہ جنگجوسورماکاقبیلہ تہہ تیغ کردیاگیا۔یہ اپنی بیوی کے ساتھ بڑی مشکل سے جان بچاکر پسپاہوگیا۔

میدان جنگ سے فرار ہوکریہ سورمااپنی بیوی اورننھے بچے کے ساتھ ٹھیک اسی مقام پر پہنچاجوہماری گفتگوکاموضوع ہے۔یہاں ایک طرف ٹھاٹھیں مارتاہواسمندراوراس کی غصیلی لہریں تھیں تو دوسری طرف بلندوبالاپتھریلی چٹانیں اس ساحل کوآپ دنیاکے خطرناک ترین ساحلوں میں شمارکرسکتے ہیں۔چٹانوں سے سرٹکراتی لہریں جھاگ سے ساحل کوڈھانپے جاتی ہیں۔جب شکست خوردہ جنگجوسرداراوراس کی بیوی اپنے بیوی کے ساتھ اس مقام سے گزر رہے تھے توساحل پران کا ننھابچہ کھوگیا۔

اس کمسن کے غائب ہونے اورلہروں میں بہہ جانے پرغم زدہ ماں نے ایک مختصر سی نظم لکھی ،یہی نظم اس شہرکی وجہ تسمیہ بنی۔
والدین کو کچھ پتہ نہیں
اس شہرکی لہروں پرایک بچہ
جھاگ میں غائب ہوجاتاہے،کوشن جی راہ کنارے
اس دکھ بھری داستان اورنظم کی یاد میں پچھلی صدی کی ابتداء میں ایک نامورسنگ تراش نے ممتا کے جذبے کواجاگر والاایک مجسمہ تراشا۔

قدآدم میں خاتون نے ایک بچہ گود میں اٹھارکھاہے،جبکہ اس کا دوسرا بچہ ماں کیٹانگ کو تھامے کھڑاہے۔ماں اوربچے کی نگاہیں چٹانوں کی سمت اٹھی ہوئی ہیں۔یہ مجسمہ درشنی باغ میں نصب کیا گیا ہے۔
جاپان جزیروں کاجھرمٹ ہے جن کی تعداد6853ہے۔مگران میں سے بڑے جزائر چارہیں۔یہ چار جزائر ملک کے مجموعیرقبے کا 97فیصدہیں۔جیسامنظرمذکورہ علاقے کا ہے۔

یہی جاپان کا عمومی لینڈ سکیپ ہے۔ملک کا73فیصدرقبہ پہاڑوں،جنگلوں یاایسے علاقوں پرمشتمل ہے،جہاں کاشکاری ممکن نہیں،نہ ہی صنعتیں ہیں اورنہ ہی آبادی ممکن ہے۔اس دیس کی آبادی بقیہ27فیصد رقبے پر ہی آباد ہے۔یہ علاقہ صدیوں سے اپنی نوکیلی چٹانوں کی خطرناکی اورساحلوں کی تندی کے سبب مشہور رہاہے۔جدیدشاہراہوں کی تعمیرکے بعداب یہ راست ویسے خطرناک نہیں رہے۔

کافی کشادہ سڑکیں بن گئی ہیں۔اور بل کھاتی خونخوارچٹانوں اور گہری گھاٹیوں کی جگہ سرنگوں نے لے لی ہے جوپہاڑوں اور چٹانوں کے اندرسے گزرجاتی ہیں۔
مجھے جس چیز نے اس خوبصورت علاقے کے سفر کے لئے تحریک دی،وہ عہدسازجاپانی صوفی شاعر اور سفرنامہ نگارماتسوباشوکی شاعری اور نثرمیں”والدین نہیں جانتے ہیں“میں ان کے قیام کاتذکرہ ہے۔سترھویں صدی عیسوی کے اس صوفی منش شاعر اور ادیب کی تخلیقات کا ترجمہ دنیاکی تمام
 بڑی زبانوں میں ہوچکاہے،۔

سندِقبولیت بھی حاصل کر چکاہے۔میری نظرمیں باشومولاناروم اورعمرخیام کے پائے کا شاعر ہے۔خیال ،فنی پختگی اور گہرائی کے اعتبارسے وہ دنیاکے بڑے شعراء کرام کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔کچھ عرصے سے ماتشوباشوکی شاعری کا پنجابی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام کررہا ہوں۔تصوف کارنگ اس کے کلام میں غالب ہے۔برصغیرپاک وہند میں ایسی شاعری کی مثال تلاش کرنا چاہیں تو سچل سرمست کو پڑھ لیں۔

سچل اور باشوکی شاعری کا رنگ بڑی حد تک ایک جیساہی ہے۔اپنے شہرہ آفاق سفرنامے میں باشو نے اس علاقے کابڑی تفصیل سے ذکرکیاہے۔یہاں پراس کا قیام ایک سرائے میں تھا۔اسی سرائے میں اس نے ایک لافانی ہائیکولکھی۔یہ ہائیکوعالمی ادب کا قیمتی حصہ سمجھی جاتی ہے۔آپ بھی پڑھیے کہ اتنے کم الفاظ میں ایسی بڑی باتیں کیسے کی جاسکتی ہیں۔سرائے کامنظرذہن میں رکھئے۔
ایک ہی چھت کے تلے
طوائفیں بھی سوتی ہیں
جنگلی گھاس اور چاند
ویسے تو جاپانی زبان میں”اویاشی رازو“عقب داڑھ کو بھی کہتے ہیں مگریہ غیررومانوی سی بات ہے۔بہتر ہے کالم تمام کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :