پاناما کیس کا فیصلہ

اتوار 26 مارچ 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

پورے ملک میں پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار بڑی شدت سے کیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے فیصلے کے دن قریب آ رہے ہیں فریقین کے دل بلیوں اچھل بھی رہے ہیں اور کہیں کہیں دل بیٹھا بھی جا رہا ہے۔ اطراف کی جانب سے جہاں امکانی فتح کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں وہاں شکست کی صورت میں ماتم کا بھی انصرام کیا جا رہا ہے۔عجیب کیفیت ہے کہ فی الحال دونوں فریق اپنے، اپنے حق کی فتح کے منتظر ہیں ۔

دونوں دوسرے فریق کو باطل قرار دیتے ہیں ۔دونوں اپنے، اپنے سچ کا علم بلند کئیے بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ اپنی خامی کسی کو نظر نہیں آ رہی۔ اپنی غلطی کوئی نہیں پہچان رہا۔ الزام در الزام کا سلسلہ ہے کہ کسی طرح رکنے میں نہیں آ رہا۔ میڈیا بھی متوقع فیصلے کے حوالے سے تقسیم ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

فصلی دانشور بھی حقائق کو اپنی مرضی کا رنگ دے رہے ہیں ۔ فریقین کے دعوے سن کر تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہی اس کیس کا فیصلہ آئے گا اس ملک کی تاریخ اچانک بدل جائے گی۔

عدالتی نظام اور اس کی کجیاں ایک لمحے میں دور ہو جائیں گی۔ ہر مجرم کو سزا ہو جائے گی۔ ہر شکایت کنندہ کی داد رسی ہو گی۔قانون کا بول بالا ہو گا۔ انصاف کی فتح ہو گی۔ چلیں عدالتی نظام کے بارے میں تو بات کچھ بنتی بھی ہے لیکن اس ملک میں ایسے بھی دانشور ہیں جو لوگوں کوہر روز یہ باور کرواتے ہیں کہ جیسے ہی فیصلہ آئے گا اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

کھیتوں میں گندم کی بالیاں سونا اگلنے لگیں گیں۔ عورتوں کو عزت ملنا شروع ہو جائے گی۔ معذوروں کی ذمہ داری حکومت اٹھا لے گی۔ مزدور کو اس کا حق ملنے لگے گا۔ اچانک ہی معیشت ترقی کر جائیگی ۔ بچوں کو تعلیم ملے گی۔بھوکے کو روٹی ملے گی اور بے روز گار وں کو روزگار دستیاب ہو گا۔سیاست میں گالی گلوچ کا خاتمہ ہو گا۔حکومت اور اپوزیشن مل کر عوامی فلاح کے لئے کام کریں گی۔

امن اور آشتی کی ایک جنت نظیر فضا قائم ہو گیاور محبت اور بھائی چارہ ابد تک فروغ پائے گا۔
ایسے تمام خوش امید احباب کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے لئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہو گا کہ پاناما کیس کا فیصلہ آ جانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔ یہ نظام اور یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا۔نہ ترقی کا پہیہ دوڑنے لگے گا نہ انصاف کی سبیلیں لگ جائیں گی۔

نہ غریب کوروٹی ملے گی نہ بے روزگاروں کو نوکری میسر آئے گی۔ نہ آسمان سے من وسلوی ٹپکنے لگے گا نہ دولت امراء کے خزانوں سے نکل کی فقیروں میں تقسیم ہو گی۔نہ ہی اس فیصلے کے آنے سے طبقاتی کشمکش ختم ہو گی اور نہ اس ایک فیصلے سے کوئی انجانا انقلاب آجائے گا۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا ۔ سب کچھ ایسا ہی رہے گا۔کہنے کا مقصدیہ ہے کہ عموما ایسے سیاسی مقدمات کے نتائج کے ثمرات اور مضمرات سیاستدانوں تک محدود رہتے ہیں۔

عوام کا ان معاملات میں نعرے لگانے سے زیادہ کوئی کام نہیں ہوتا۔
میں پہلے بھی بارہا اس بات کا اقرار کر چکا ہوں کہ قانون کے علم پر مجھے ذرا بھی دسترس نہیں۔ عدالتی نظام سے واقفیت کا دعوی میں نے کبھی نہیں کیا۔ آف شور کمپنیوں کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں بھی میرا علم محدود ہے۔ بین القوامی بینکنگ کے اصولوں سے بھی کچھ خاص شنا سائی نہیں ہے۔

ٹیکس کے بچانے کے معاملات سے بھی میں کافی حد تک بے بہرہ ہوں ۔ اس لئے قانونی طور پر کوئی بات کہنا میرے بس کی بات نہیں ۔ یہ الگ بات سے ہے کہ ہمارے بہت سے دوست جو علم کے معاملے میں مجھ سے بھی گئے گزرے ہیں ہر شام کو عدالت
لگاتے ہیں، خود وکیل، خود گواہ بنتے ہیں ، خود ہی ثبوت بھی فراہم کر تے ہیں اور رات تک فیصلہ سنا کرشتاب ہو جاتے ہیں مجھے اپنے علم کے بارے میں ایسی کوئی خوش گمانی نہیں ہے اور نہ میں خود کو ایک ایسے کیس کا فیصلہ سنانے کا اہل سمجھتا ہوں جو عدالت میں چل رہا ہو اور جس پر سارے ملک کی نظر ہو۔


ایک عام شہری کی حیثیت سے میرا علم اتنا ہی بتاتا ہے کہ پاناما کیس کے تین ہی ممکنہ فیصلے ہو سکتے ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ عمران خان اینڈ کمپنی کے موقف کی حمائت کر دے۔ خان صاحب کی جانب سے پیش کردہ ثبوتوں کو سچ مان لیا جائے۔ وزیر اعظم کرپشن کے الزام ثابت ہو جائے اور انہیں مجرم قرار دے کر یکدم انکی برطرفی کا اعلان کر دیا جائے۔

انکے خاندان کے افراد کی گرفتاری کا حکم ہو جائے۔ اثاثے ضبط ہو جائیں اور شریف خاندان کی سیاست ہمیشہ کے لیئے دفن ہو جائے۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے ہ عدالت پی ٹی آئی کی طرف سے پیش کردہ تمام ثبوتوں کو جھوٹ اور بہتان قرار دے۔ وکلاء کے دلائل کو بودا اور بوگس قرار دے کر اس سارے کیس کو یک سر مسترد کر دے۔ پی ٹی آئی کوتنبہیہ کی جائے کے ایسا بیہودہ کیس پیش کر کے عدالت عالیہ کا آئندہ وقت نہ ضائع کیا جائے۔

اس کیس کو اس نظام کو درہم برہم کرنے کی ایک گہری سازش قرار دے اور سازشیوں کو قرار واقعی سزا سنائی جائے۔ اس طرح عمران خان کی ڈوبتی سیاست کی نیا کو ایک اور ہچکولہ لگے اور یہ ڈولتی ، ڈوبتی کشتی کہیں پاتال میں ہمیشہ کے لیئے گم ہوجائے۔
ممکنہ عدالتی فیصلے کی تیسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت اس بات کا اعلان کر دے کہ فریقین کی جانب سے درست ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مزید تفتیش کا حکم دے دیا جائے ۔

چونکہ اس معاملے کی نوعیت قومی اور بین القوامی سرحدوں کو بھی چھو رہی ہے اس لئے اس کے حتمی اور اٹل فیصلے کے لئے ایک کمیشن کوحقائق جاننے کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔البتہ نیب اور ایف بی آر کی ناقص کاکردگی کو آڑے ہاتھوں لیا جائے اور انکے سربراہوں کی تعیناتی کا نیا طریقہ کار بھی وضع کیا جا ئے۔
سچ تو یہ ہے کہ تیسری صورت بہت حد تک ممکنہ صورت بھی ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے فیصلے کے نتیجے میں دونوں ہی پارٹیاں اسے اپنی، اپنی اخلاقی فتح قرار دیں گی۔ دونوں ہی فریق حریف کوچاروں شانے چت کرنے کا دعوی کریں گے۔ کمیشن کی رپورٹ جانے کتنے برس میں مکمل ہو گی مگر سیاست کا کارزار اسی طرح گرم رہے گا۔ ہر روز پھر دانیال عزیز ، طلال چودھری اور عابد شیر علی پی ٹی آئی پر گرجیں گے اور دوسری جانب سے نعیم الحق، فواد چودھری اور نعیم بخاری اسی طرح حکومت کا تمسخر اڑائیں گے۔

ایسی صورت میں کچھ نہیں بدلے گا۔جو کچھ ہو رہا ہے اسی شدت سے ہوتا رہے گا۔ا لزام لگتے رہیں گے، گالم گلوچ جارہی رہے گی، میڈیا کو گرما گرم خبریں ملتی رہیں گی اور سیاست اور سیاستدانوں کی تذلیل کا سلسلہ جاری رہے گا۔میری بس یہی دعاہے کہ درست فیصلہ کا اختیار تو بہرحال عدالت عظمی کو حاصل ہے بس فیصلہ لکھتے ہوئے یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سزاکرپشن کی ہونی چاہیے جمہوریت کی نہیں۔
تصیح ۔ گذشتہ کالم تین طرح کے ڈاکٹر میں ڈاکٹر انور خان کہ اہلیہ کا نام غلط چھپ گیا تھا۔ درست نام ڈاکٹر تنویر انور خان ہے۔ جو معروف سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔ کئی کتابیں بھی تصنیف کر چکی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :