
نہال ہاشمی کا قصور کیا ہے؟
جمعہ 2 جون 2017

عمار مسعود
بیشتر لوگوں کی خواہش ہے کہ نہال ہاشمی کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
(جاری ہے)
ہمارے ذہن چھوٹے اور اور حافظہ کمزور ہے۔ ہماری یاداشت مختصر اور تنگ ہیں۔ ہم سامنے کی بات یاد رکھتے ہیں ماضی ہمارے ذہنوں سے محو ہو چکا ہوتا ہے۔ آج عدلیہ کے حق میں نعرے لگانے والوں کو یاد بھی نہیں کہ اسی ملک میں ایک ڈکٹیٹر نے اس وقت کے چیف جسٹس کو کھڑے کھڑے برطرف کر دیا تھا۔ اس کو بالوں سے پکڑ کر پولیس کی وین میں دھکیلا گیا تھا۔ اس کو گھر میں قید کر دیا گیا تھا۔ اس کے بچوں کو خوارک کی فراہمی میں روکاوٹیں ڈالی گئی تھیں۔ اس پر غدار کا الزام لگا تھا۔ اس کے فیصلوں پر جانبداری کا شک ہواتھا۔ اس پر زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ اس کو مکے دکھا دکھا کر دھمکایا گیا تھا۔اس پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ اسکی گاڑی چھین لی گئی تھی۔ اس کے اختیارت لے لئے گئے تھے۔ اس کو مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اس پر جھوٹے مقدمات بنے تھے۔ اس کو عبرت کا نشان بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔
عدلیہ کے احترام کا نعرہ لگانے والوں کو بارہ مئی بھی بھول گئی ہو گی۔ کراچی جیسے شہر میں انصاف اور عدلیہ کی بالہ دستی کے لئے نکالے گئے جلوس پر کھلے عام فائرنگ کی گئی تھی۔ درجنوں وکیلوں کو بھون کر رکھ دیا گیا تھا۔لاشوں کو سڑکوں پر عبرت کے نشان کے طور پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ایک پورے شہر کو انصاف کے حق میں آوز بلند کرنے کی پاداش میں نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ آج تک اس بہیمانہ قتل عام کا نہ سراغ لگا ہے نہ قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کوئی کارروائی ہوئی ہے۔ نہ کوئی مقدمہ بنا ہے نہ گرفتاری ہوئی ہے۔ خوف اتنا ہے کہ اس بہمیانہ واقعے کے
بارے میں بات کرتے ہوئے بھی لوگ احتیاط ادھر ادھر دیکھ لیتے ہیں۔ کہیں انصاف کا علم بلند کرتے ہوئے خود بلی نہ چڑھ جائیں۔
نہال ہاشمی کی بدزبانی پر بات کرنے والوں کو یہ بھول گیا ہے کہ اس ملک میں ایک لیڈر ہے جو اس ملک میں نہیں رہتا تھا۔ گھنٹوں چینلوں پر اس کی ہذیان کو سننا پڑتا تھا۔ کبھی وہ پاکستان مخالف نعرے لگواتا تھا۔ کبھی بھارت کو مدد کے لئے پکارتا تھا۔ کبھی اپنی فوج کے خلاف ہو جاتا تھا۔ کبھی ایجنسیوں کے خلاف مغظلعات بکتا تھا۔ کبھی عورت مرد کے جنسی تعلقات کی باریکیوں پر سر عام گفتگو کر تا تھا۔کبھی عدالتوں کو دھمکاتا تھا۔ کبھی سرعام بوریاں بنوانے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ کبھی شہر کو آگ لگو ا دیتا تھا۔ کبھی قتل عام کروا دیتا تھا۔ اس لیڈر کے ہذیان پر بات کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی۔ جب تک اس کی پشت پناہی موجود تھی وہ راج کرتا رہا ۔ اس وقت کسی نے اداروں کے احترام کا نہیں سوچا ۔ اس وقت کسی نے انصاف کے حق میں علم بلندنہیں کیا۔
دور کی بات جانے دیں زمانہ حال کے ایک لیڈر نے کیا میڈیا پر آکر سول نافرمانی کا حکم نہیں دیا تھا؟ جلاو گھیراو کا ارداہ سرعام نہیں کیا تھا۔ یہ وہ لیڈر ہے جو پرائیوٹ محفلوں میں ادارے کے بارے میں اسقدر توہین آمیز بات کرتا ہے کہ سوچ کی شرم آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بچے بچے نے اس وڈیو کو دیکھا ہے لیکن کیا الیکٹرانک میڈیا پر کسی نے اس وڈیو کے بارے میں ایک جملہ بھی کہا ہے؟ایک دفعہ بھی مذمت کی ہے؟ایک دفعہ سپریم کورٹ نے اس پاگل پن کا نوٹس بھی لیا ہے۔یہ وہی لیڈر ہے جو سرعام جمہوریت کو، اس نظام کو ، عوام کے ووٹ کو گالی دیتا ہے۔ سرکاری افسران کو اپنے ہاتھ سے چوک میں پھانسی دینے کا نعرہ بھی لگاتا ہے۔ نشے میں دھت ہو کر اسلام آباد کو لاک ڈاون کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے۔ سی پیک جیسے پراجیکٹ کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ چین کے صدر کو اس ملک کا دورہ منسوخ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔اس پر تو کسی نے عبرت ناک سزا دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اس پر تو کبھی سو موٹو نہیں لیا گیا۔ اس پر تو کبھی اداروں کی توہین کا الزام نہیں لگا۔
آخر میں کچھ ذکر ہو جاےئے اپنے اینکروں کا۔ دنیا بھر میں جب کسی عدالت میں کوئی کیس چل رہا ہو تو تجزیہ کار اس پر گفگتو نہیں کرتے ۔ لیکن گذشتہ چار سال کی میڈیا رپورٹ دیکھ لیں ہر اینکر نے اپنی عدالت نہیں لگائی۔ اپنے اداروں پر کھلم کھلا الزام نہیں لگائے۔ عوامی اداروں کی تضحیک نہیں کی۔ عوام کے ووٹوں کا مذاق نہیں اڑایا۔ مارشل لاء کو آئے روز دعوت نہیں دی۔ شکریہ احیل شریف کی کمپیئن نہیں چلائی۔ عوامی نمائندوں پر جھوٹے الزام نہیں لگائے؟اداروں کے بارے میں جھوٹی خبریں نہیں دیں؟عدلیہ اور اداروں کو بدنام کرنے کی سازشیں نہیں کیں؟دفاعی اداروں پر ستو پینے کا الزام نہیں لگایا گیا؟
نہال ہاشمی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ایک کارکن ہے۔ اپنے قائد کے حق میں بولنے سے چپ نہیں رہ سکا۔ یہ وہ شخص ہے جو ایک ایسے شہر میں پارٹی کا پرچم بلند کر ہاہے جو کچرے کا ڈھیر بنا ہے۔ ایک ایسے شہر میں بات کر رہا ہے جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا او ر اب اندھیروں کا قبرستان ہے۔ نہال ہاشمی جمہوریت کے لئے جدوجہدکر ہا ہے۔ ایک رجسٹرار کی جانب سے وٹس ایپ کالوں پر شعلہ بیان ہے۔ اگر وہ ایک ڈکٹیٹرہوتا تو اس کو سب خون معاف ہوتے۔ اگر وہ ایک ایمپائر کی انگلی کی تلاش میں رہنا والا لیڈر ہوتا تو آج بھی میڈیا کا لاڈلا کہلاتا۔ اگر وہ ایک اینکر ہوتا تو عدلیہ کی اس تضحیک پر اسکی پذیرائی ہونی تھی۔ اگر وہ ایک رجسٹرار ہوتا تو انصاف کے اس قتل کا اسکو انعام ملنا تھا۔ نہال ہاشمی کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ ایک مخلص کارکن ہے اور جمہوریت کے لئے سب کچھ داو پر لگا دینے کا تیار ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.