
گھمسان کا رن پڑنے والا ہے
پیر 12 جون 2017

عمار مسعود
کاغذات ، ثبوت، پیشیاں اور دلائل اب بے معنی سے لگتے ہیں۔ اس سارے عمل کے پیچھے اب کچھ اور ہی عوامل کارفرما نظر آرہے ہیں۔
(جاری ہے)
اگر اس جے آئی ٹی کے حوالے سے خبروں پر ایک نظر ڈالیں تو بات مشکوک ہوتے ہوتے اب یقینی ہو گئی ہے۔ وٹس ایپ کالزپر منتخب کیئے گئے من پسند لوگ بلا شبہ اس جے آئی ٹی کی پیشانی پر داغ ہیں۔
جے آئی ٹی کے معاملات اس قدر مشکوک ہونے کے بعد نہال ہاشمی، مشاہد اللہ اور رانا ثنا اللہ سامنے آگئے۔ جمہوری اداروں کے پیش نظر خطروں کو بھانپ کو ان لوگوں نے سخت زبان استعمال کی۔ جس کا نوٹس بھی لیا گیا۔ کسی کو عدالت میں پیش ہونے کو کہا گیا ،کسی کو غنڈہ ، بدمعاش کہا گیا اور کسی کو غدارقرار دیا گیا۔حسین نواز تصویر کے لیک ہونے والے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں چلے گئے اور دوسری جانب جے آئی ٹی کے ارکان کی جانب سے بھی یہ شکایت زور پکڑ گئی کہ ہم پر دباو ڈالا جا رہا ہے۔ کار سرکار میں مداخلت کی جا رہی ہے۔
یہ تو تھی اب تک کی کاروائی کہ کیا ہو چکا ہے لیکن یہ بات ابھی مکمل نہیں ہے۔ مکمل نتائج تک پہنچنے کے لیے ماضی کے دروازے پر دستک دینا ہو گی۔
صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی اوریہی قانون تھا ، جب ایک ڈکٹیٹر نے چیف جسٹس کو اپنے دفتر میں بلا کر نوکری سے برخواست کیا، اس کو گھر میں نظر بند کر دیا ،پولیس والوں نے اس کو بالوں سے پکڑ مجرموں کی ویگن میں بٹھا یا۔ یقین مانئے، اس وقت اسی عدلیہ کے چند لوگوں نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا تھا اور جلدی سے حلف لے لیا تھا ۔صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی ، یہی قانون تھا اوریہی عدالتیں تھیں جب ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا تھا۔ اس دفعہ معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں تھا۔ آف شور کمپنیاں زیر بحث نہیں تھیں۔ کسی فلیٹ کی خریداری کا معاملہ نہیں تھا۔ مقدمہ آئین شکنی کا تھا۔ مقدمہ جمہوریت پر شب خون مارنے کا تھا۔ الزام اس ملک کے کڑوڑوں لوگوں کے ووٹوں کو اپنے پاوں تلے روندنے کا تھا۔ لیکن ساری عدالتیں ، سب سیاسی جماعتیں، قانون کے ادارے تماشا ہی دیکھتے رہے اور کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی کہ عدالت میں چند پیشیاں ہی کروا دے۔ ہم سب نے دیکھاکہ اس وقت ایمبولینس کمر درد کے بہانے آ جاتی تھی۔ لمحوں میں مطلوبہ میڈیکل رپورٹ دستیاب ہو جاتی تھیں۔ ایسے ہسپتالوں میں مہینوں کے لیئے داخلے ہو جاتے تھے جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔ اس ملک کے عوامی اداروں یا افراد سے کسی کی جرات نہیں تھی کہ انصاف کا نعرہ بلند کر سکے۔ سب ادارے بے بس ہو گئے۔ سب نظام معطل ہو گیا مگر عدالت میں پیشیاں نہیں ہوئیں، کوئی تصویر لیک نہیں ہوئی۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ باوجود ہزار مخالفت کے ڈکٹیٹرصاحب اس ملک سے باعزت طوربغرض علاج سدھار گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملک سے رخصت ہوتے ہی کمر درد کو بھی آرام آگیا اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کا آ غاز بھی ہو گیا۔۔صاحبان، یہی ملک تھا ، یہی عدلیہ تھی ، یہی قانون تھا ، یہی عدالتیں تھیں جب ایک ڈکٹیٹر کے اکاونٹس میں موجود اربوں ڈالر کے بارے میں کسی نے سوال کرنے کی جرات کی تو جواب آیا کسی مائی کے لال کی جرات نہیں کہ میرے اثاثوں پر بات کرے۔پھر نہ کوئی جے آئی ٹی بنی، نہ عدلیہ نے نوٹس لیا، نہ کرپشن کا نعرہ لگا اور نہ احتساب کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔حق بات تو یہ ہے کہ اس بیان کے بعد کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی ۔ہمت ہی نہیں پڑی۔ حوصلہ ہی نہیں ہوا۔
صاحبان جب احتساب کے نام پر صرف عوامی نمائندوں کی تضحیک اور توہین کا اہتما م ہو گا ، جب ایمپائر کا کام لیگ ایمائر کو سونپ دیا جائے گا تو عوام کی نظر میں یہ سارا عمل مشکوک ہو جائے گا۔ اب معاملات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتاکہ فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آئے یا مخالفت میں دونوں صورتوں میں فائدہ شریف خاندان کو ہی ہوگا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ توقع یہی ہے کہ لوگ اب اتنے بے وقوف نہیں رہے جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔
جے آئی ٹی کے ممبران کی شعلہ بیانی سے جتنا مرضی اختلاف کر لیں لیکن یہ بات انکی درست ہے کہ اس ملک کو گمنام گاڈ فادر چلاتے ہیں اور یہاں مافیاکی حکومت ہے اگر چہ معزز ممبران جے آئی ٹی اب تک یہ بات عوام کو بتانے میں قاصر ہیں کہ مافیا کی اس نگری میں عوامی نمائندے قطعا بے بس ہیں۔ہمیں نہال ہاشمی، مشاہد اللہ اور رانا ثنا اللہ کی گیدڑ بھبھکیوں کی بالکل کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے یہ آوازیں پہلے بھی قلعوں کی سنگلاخ دیواروں کے پیچھے قید کر دی گئیں تھیں اب بھی ان سر پھروں کو چپ کروانا گاڈ فادر کے لئے اتنا دشوار نہیں۔
شکوک و شبہات میں جنم لینے والی اس جے آئی ٹی کا مستقبل کیا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے، تو آئندہ چند دنوں میں ، جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے مابین ،گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.