جی بی الیکشن: آخری معرکہ (جی بی ایل اے 3)

اتوار 22 نومبر 2020

Anees Baig

انیس بیگ

پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان حلقہ نمبر 3 کے علاوہ تمام حلقوں میں انتخابات ہوئے. جن میں پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں کی وضع برتری نے آنے والی حکومت کا تعین کیا. آزاد امیدوار جن میں کثرت ان کی تھی جو پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے نالا تھے اور آزاد میدان میں اترے تھے. جو کی الیکشن جیتنے کے بعد دوبارہ پارٹی میں شامل ہو گئے.

پی ٹی آئی کے پاس نہ کوئی بھٹو تھا، نہ ان کا ماضی جس کی بنیاد پر وہ ووٹ مانگنے نکلتے. قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں جیسے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے بظاہر مضبوط امیدوار آزاد لڑ کے پارٹی میں دوبارہ شامل ہو گئے تھے. جس سے یہ تاثر ملنا غلط نہیں کی اس طرح پی ٹی آئی نے اپنے ان امیدواروں کو جنہیں ٹکٹ نہیں دیا نے سیمپیتی کی بنیاد پر ووٹ لینے کی ایک نیی روایت قائم کی، اور اسے پی ٹی آئی کی الیکشن اسٹریٹجی کہنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیئے.

جو کہ گلگت بلتستان انتخابات 2020 میں بھی نظر آیا. باغی رہنما پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کی شکایت و اپنی پارٹی کے لیے خدمات کو ناقابلِ فراموش سمجھ، لوگوں کے پاس ان کے حقیقی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آئے، جس کی بدولت ان امیدواروں کو لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی. اور پی ٹی آئی کی مخالفت میں باری مینڈیٹ کے ساتھ کامیاب قرار پائے اور دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی.

جی بی ایل اے 3 کے الیکشنز جو کی پی ٹی آئی کے صوبائی صدر محترم سید جعفر شاہ صاحب کی رحلت کے باعث التواء کا شکار ہو گئے تھے. جو کہ کل ہونا تہ پایا ہے. الیکشن کمپین کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاور شوز میں سبقت پی ٹی آئی کو حاصل ہے. پی ٹی آئی حلقہ 3 نے پارٹی ٹکٹ مرحوم سید کے بیٹے سید سہل عباس کو دیلانے میں ایڈی پاوں کا زور لگایا اور بلا آخر حاصل کرنے میں کامیاب رہے.

ٹکٹ کے لیے ان کا مد مقابل ماضی کی حکومت کے منسٹر ورکس ڈاکٹر محمد اقبال تھے جو کی مرحوم سید جعفر شاہ صاحب کی رحلت کے بعد پارٹی میں شامل ہوے تھے. پی ٹی آئی حلقہ 3 کمپین میں تعزیتی ووٹ مانگتے رہے ہیں اگر وہ جیت بھی جائیں تو سید سہل عباس شاہ کے مستقبل کے لئے نیک شگون نہیں. وہی دوسرے حلقوں اور امیدواروں کے کمپینرز سوشل میڈیا میں اور گرونڈ میں حلقہ 3 کے الیکشنز میں اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں.

جن کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال اور سہل شاہ کی جیت ان کے جیتے ہوئے امیدوار کی ممکنہ وزارت کے لیے چیلنج بن سکتی ہے. وہ ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور وزارت پر کم اثرانداز ہونے والے امیدوار کی حمایت میں بول رہے ہیں. خود ان کے ووٹ مفادپرستی و فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھیں ہیں. وہی حربہ اب وہ حلقہ 3 کے الیکشن میں استعمال کر رہے ہیں. چونکہ حلقہ اپنے رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے اور بہت سے گاوں پر مشتمل ہے.

مختلف نظریات رکھنے کے باوجود حلقہ کی عوام بھی علاقائیت کے حساب سے اپنے امیدوار کی سپورٹ کر رہیں ہیں. حلقہ کا ووٹ بینک دنیور کو سمجھا جاتا ہے اور ڈاکٹر اقبال کو دنیور سے کافی سپورٹ ہے. دنیور جو کہ پچھلے کئی سالوں سے نظرانداز رہا ہے جس کی بنیاد پر پچھلے الیکشن میں ڈاکٹر محمد اقبال کو عمائدین دنیور کے ساتھ کی وجہ سے فاتح نصیب ہوئی تھی.

اب بھی وہی حالات نظر آرہیں ہیں، اور دنیور کی اسی وحدت کو توڑنے کے لیے ڈاکٹر اقبال کی ثابقہ پارٹی مسلم لیگ نون نے اپنا امیدوار دنیور سے چنا ہے اور ہر جائز ناجائز طریقے سے اپنے امیدوار کی جیت نہیں بلکہ ڈاکٹر محمد اقبال کی ہار کے لیے کوشاں ہیں. دیگر پارٹیوں کے، حلقوں سے جیتے ہوئے امیدواروں اور ان کے سوشل میڈیا وینگ اس وقت دنیور کی وحدت کو توڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہے، جس نے اپنے حلقے میں آزاد امیدوار یا پھر پی ٹی آئی کو ووٹ کیا وہ حلقہ 3 سے قوم پرست یا پھر ایسے امیدوار کی جیت کے خواہاں ہیں جو حکومت بننے پر ان کے امیدوار کی وزارت کے لیے خطرہ نہ بنے.

ایسے میں حلقہ کی عوام کا فیصلہ دیدنی ہوگا. امید ہے جو بھی جیتے گا گلگت بلتستان کے لیے مفید ثابت ہوگا نہ کی دوسرے حلقوں کے امیدواروں کی طرح ابن الوقت صرف وزارت پر اکتفا کرے گا.
نئیر مصطفیٰ اپنی ناول "نرکھ میں نرتکی" میں لکھتے ہیں کہ. 'محرومی اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کا نام ہے. یہ ایک ایسی کمزوری ہے جسے اگر طاقت بنا لیا جائے تو آتش فشاں کا روپ دھار کر اتنا لاو بہائے کہ ہر چیز جل کر راکھ ہو جائے.....

مگر المیہ یہ ہی ہے کہ یہ کمزوری، کمزوری ہی رہتی ہے کبھی طاقت نہیں بنتی'.
ہم گلگت بلتستان کے لوگ اپنی اصل محرومی کے ادراک کے باوجود ایسے، اسے پال رہے ہیں کی جیسے ایسا درخت ہو جس کے پھل کا ہمیں پتہ ہے کہ زہریلا ہے لیکن کاٹنے کی کوشش نہیں کرتے. کیونکہ اس درخت کے لگانے والے طاقتور ہیں، یوں ہم ایک گال پر طمانچہ کھانے کے بعد دوسری گال آگے کر دیتے ہیں.

ہم یہ سمجھتے ہیں پھل نہیں تو کیا ہو درخت لکڑی و پتے تو دیتی ہے جسے ہم جلاتے ہیں اور جانور پتوں پر پلتے ہیں. قومی شعور و محرومی کے ادراک کے باوجود ہم اپنے پیٹ کے لیے تگو دو کرتے ہیں. ہم ایک قوم نہیں بن پائے ابھی تک ہم علاقائیت، فرقہ، زبان، بنیادوں، کے نام پر تقسیم ہیں اسی لیے ہم اپنے جیسوں کو چنتے ہیں جو ہر بار آتے ہیں تھپڑ رسید کر چلے جاتے ہیں.
اپنے ووٹ کو گلگت بلتستان کے نام پر کاسٹ کریں اور اپنے بنیادی حقوق کے نام پر ایسے لوگوں کو ووٹ نہ دیں جو آپ کو کہتے ہیں بھائی یہ درخت پتے اور لکڑی تو دے رہا ہے پھل زہریلا ہے تو کیا ہوا�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :