آدھی رات کا مارچ پاسٹ اور اگست میں مارچ

منگل 19 اگست 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

چودہ اگست 2014 کی صبح پارلیمنٹ ہاوٴس کے باہر پاک فوج نے وزیرا عظم کو سلامی دی ۔اندھیرے میں یہ مارچ پاسٹ اور انتہائی تاریکی میں ایک آزاد ملک کی فوج نے آزادی کا جشن منایا ۔فوجی اصولوں اور قوانین کے ماہرین بہتر جانتے ہیں کہ شام ڈھلتے ہوے پرچم کو اتارا جاتا ہے صبح صادق کے وقت اسے بلند کیا جاتا ہے ۔نصف شب کی یہ تقریب پاکستا ن میں ہونے والی بہت سی نئی تبدیلیوں کی طرح ایک ایسی تبدیلی ہے جس پر کسی دانشور نے ابھی تک قلم نہیں اٹھایا۔


مارچ پاسٹ یا فوجی پریڈ ، دلوں کو گرمانے اور قوم میں جذبہٴ حب الوطنی پیدا کرنے کا وہ ایندھن ہے جس کا مزہ اور اثر دن کے اجالے میں ہی اپنا اثر دکھا سکتا ہے ۔"خواتین و حضرات اس وقت آپکے اوپرسے جو ایف 16 گزر رہا ہے اسے پاک فضائیہ کے شاہین اڑا رہے ہیں " جو حال مارچ پاسٹ کا تھا وہی حال فلائی پاسٹ کا تھا ۔

(جاری ہے)

اگر وہ اس تاریکی میں یہ اعلان نہ ہوتا تو نیچے بیٹھے ہوئے حاضرین اور ٹی وی پر دیکھنے والے ناظرین کو کچھ علم نہ ہوتا کیونکہ اس اندھیرے میں سوا ئے ایک ٹمٹماتی روشنی کے کچھ نظر نہیں آیا ۔

شائد یہ وزیر اعظم کی خواہش تھی یا انھیں کوئی خوف تھا اس لیے انہوں نے رات کی تاریکی میں سلامی کو دن کی روشنی پر فوقیت دی۔
اس سال اگست اپنے ساتھ پاکستان میں بہت سے مارچ لے کر آیا ۔کہتے ہیں راتوں میں عبادت کرنی چاہیے اور تاریکی کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے مگر چونکہ " چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے " تو کسی میں ہمت نہیں ہے کہ حکمرانوں کو ایسی حرکتوں سے روک سکے ۔

پاکستان کے حکمرانوں نے رات کے شر سے پناہ مانگنے کے بجائے اس میں پناہ تلاش کرنا شروع کر دی ہے ۔اگست آزادی کا مہینہ ہے اس مہینے کی افادیت کو کوئی پاکستانی جھٹلا نہیں سکتا ۔اس برس یہ مہینہ عجیب شہرت اختیار کر گیا ہے ۔
کہنے کو تو پاکستان میں ایک جمہوری حکومت ہے مگر لگتا ہے یہ حکومت صرف اخباری اشتہارات اور ٹیلی ویڑن کے تبصروں تک محدود ہے۔

ماورائے عدالت قتل اور پولیس گردی کی مثالیں ، اقربا پروری کی انتہا اور ملک کے دشمنوں کے سامنے نغمہ سرائی ، غریبوں ایک لیے قانون کا شکنجہ سخت اور امرا کے لیے آسانیاں ، اپنی ہی فوج کو دوسروں کے سامنے شرمندہ کرنا اور دہشت گردوں کو تحفظ مہیا کرنا ، مظلومین کا مقدر رسوائی اور ظالموں کی امداد میں سرکاری خزانوں کے کھلے دروازے اور اس پر آدھی رات کا مارچ پاسٹ …….میاں محمد نواز شریف کیا حقیقی عوامی نمائندے ہیں ؟
اس سوال کو اٹھانے والے اب پرویز مشرف کو یاد کرتے ہیں ۔

گو کہ پرویز مشرف کو بہت سے لوگ نا پسند کرتے ہیں ، میں نے بھی پرویز مشرف کے خلاف اور انکی غلطیوں پر بہت کچھ لکھا مگر کسی کے اچھے کام کا کریڈیٹ اسے دیا جانا چاہیے ۔
آج کی حکومت جتنا پیسہ اشتہارات پر خرچ کر رہی ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بہت سے میڈیا ہاوٴسز خاموشی سے اپنا حصہ بٹور رہے ہیں اور کسی کو بھی سڑکوں پہ اپنے حق کی مانگ کرنے والے نظر نہیں آ رہے ۔

جس انداز سے ان مظلوم عوام کے موقف کو بیان کیا جا رہا ہے وہ طریقہ کار افسوسناک ہے۔ہر اینکر ( ماسوائے چند کے ) سب پاکستان کی سڑکوں پر بیٹھے عوام کو پاگل ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کچھ تو ان کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔کوئی عمران خان کو جنونی ثابت کر رہا ہے اور کوئی طاہر القادری کو ٹیکس ڈیفالٹر بتا رہا ہے اس میں وہ چینل بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی ٹیکس بھی نہیں دیا ۔

آج بہت سے صحافی کسی نہ کسی کے ایجنڈے پر کام کرتے نظر آتے ہیں ۔پاکستان میں کسی دور میں اخبار فروش اور صحافی بڑے سخت دور سے گزرے ۔ان کی واجبی سی تنخواہیں ہوا کرتیں تھیں اور بہت کم لوگ صحافت میں کوئی اعلیٰ ڈگری لیتے ۔مشرف نے پاکستان میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی راہ ہموار کی تو میڈیا بھی ایک شعبہ بن گیا ۔بیس ہزار کی تنخواہ والا آج دو سے تین لاکھ کما رہا ہے ، شائد اسی لیے سب سے پہلے ، سب سے اچھی، سب سے مستند ، سب سے خطرناک ، سب سے بڑی، سب سے حساس خبر کی تلاش میں لگے صحافیوں نے خبر کو سنسنی میں بدل دیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہر روز ایک بڑی خبر جنم لیتی ہے اور اسے اپنے انداز میں سب سناتے، چلاتے اور بار بار دہراتے ہیں۔
اگست میں مارچ اور بے شمار مارچ ۔یہ آجکل سب سے زیادہ بکنے والا پروڈکٹ ہے ، سب سے زیادہ کور کیا جانے والا ایوینٹ ہے ، لاہور سے اسلام آباد کا سفر ، لاکھوں لوگوں کا سیلاب ، چوبیس گھنٹے کا سفر اور حکومتی پریشانیاں ۔

اس ایک موضوع پر جتنا لکھا، کہا اور سنوایا گیا اس سے لگتا ہے کہ پاکستان مارچوں کا ملک ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا ، مارچ ، دھرنا اور مارچ ……یہ آج کی کل کی اور آنے والے کل کی ٹاپ سٹوری ہے ، اس ٹاپ سٹوری میں ٹاپ اور باٹم لائن حکومت کی نا اہلی اور عوام کی وہ فرسٹریشن ہے جس کا اظہار عوام نے ان مارچوں میں کر دکھایا ۔

دست و گریباں سیاستدانوں اور ٹاپ سٹوری کے متلاشی صحافیوں نے عوام کی درگت بنا دی۔ممکن اور نا ممکن کی جنگ میں ملک کی معیشت کا خانہ خراب ہو گیا مگر اقتدار کے ایوانوں سے نہاری ، چکن چھولے اور تازہ نانوں کی خوشبو کے علاوہ کوئی رد عمل نہیں آیا ۔
آج میری نظرسے حکیم سنائی کا ایک شعر گزرا،حکیم سنائی لکھتے ہیں :
بر خود آنرا کہ پادشاہی نیست
بر گیاہیش پادشاہ شمار
ترجمہ : جس شخص کو اپنی ذات پر حکمرانی نہیں تو اسے صرف گھاس پر بادشاہ شمار کرو (وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جسے ایک تنکے پر بھی اختیار نہیں) کس قدر خوبصورت تصویر کشی ہے آج کے حکمرانوں کے مزاج کی۔

ہندوستان پر فوج کشی کے لیے جب بہرام شاہ نے ہند کا رخ کیا تو حکیم سنائی اس کے ساتھ تھا ۔بہرام شاہ اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان کے سفر پر تھا اس کا قافلہ ایک باغ کے پاس سے گزرا اس باغ کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک پراسرار واقعہ پیش آیا کچھ ایسا ہوا کہ بادشاہ نے قافلے کو رکنے کے لیے کہا ۔سفر لمبا تھا ، فوج اسلحہ بند تھی ، منزل دور تھی اور کسی کے پاس رکنے کا وقت نہیں تھا مگر پھر بھی رکا ۔

باغ سے آنے والے ایک نغمے کی آواز نے سلطان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ۔فوج رک گئی ، بادشاہ اپنی سواری سے اترا اور باغ میں داخل ہوا ، سنائی اس کے ساتھ تھا ۔بہرام شاہ نے ایسا نغمہ کبھی پہلے نہیں سنا تھا ، اس نغمیکے الفاظ کی مضبوطی ، غالب مقناطیسیت اور سرور نے بادشاہ کو ایک لمحے کے لیے دیوانہ کر دیا۔
بادشاہ باغ میں داخل ہوا تو ایک مدہوش ملنگ جس کا نام لائی خر تھا نے اپنی مستی میں بادشاہ کی جانب دیکھا اور جام کا پیالہ بلند کرنے کو کہا ۔

لائی خر نے کہا "سلطان بہرام شاہ کے اندھے پن کے نام ایک جام "۔بادشاہ جو ابھی تک لائی خر کے نغمے کے سرور میں مدہوش تھا ۔میں اس روز وہاں نہیں تھا مگر مجھے لگتا ہے کہ بادشاہ یہ سن کر سیخ پا ہو گیا ہو گا ۔راوی بیان کرتا ہے کہ بادشاہ نے لائی خر سے زبان سنبھال کر بات کرنے کو کہا ۔وہ ایک طاقت ور بادشاہ تھا ، اس کے پاس فوج تھی ، اس کے پاس اسلحہ تھا اور وہ ہندوستان کو فتح کرنے جا رہا تھا جبکہ ملنگ لائی خر کے پاس کچھ نہ تھا بس الفاظ تھے،
مدہوشی تھی، کسی اور جہان کے راز تھے اور چہرے پر ایک ہنسی تھی ۔

لائی خر پھر بولا "سلطان بہرام شاہ کے اندھے پن کے نام ایک جام"۔اعتراض مزید ہوا ، تلواریں میان سے نکلیں ، سپاہی اپنے سپہ سالار اور بادشاہ کے ساتھ گستاخی کرنے والی پہ برسنے والے ہی تھے کہ ملنگ نے با آ واز بلند کہا "تم دنیا میں کیا فتح کر سکتے ہو ؟ سب کچھ پیچھے چھوڑ جاوٴ گے ۔فتح کا خیال بالکل پاگل پن ہے۔تم کہاں جا رہے ہو ؟ تم اندھے ہو ! خزانہ تمھارے اندر ہے اور تم ہند جا رہے ہو ، دوسرے لوگوں کا وقت برباد نہ کرو ۔

کیا ایک آدمی کو اندھا کہنے کے لیے یہ دلیل کم ہے ؟ "
لائی خر بولا " اگر تم اندھے نہیں ہو تو لوٹ جاوٴ اپنے گھر ، لوٹ جاوٴ اپنی دنیا میں جو تمھارے اندر ہے ، کاغذ کے محل نہ بناوٴ بلکہ اپنے اندر کے محل کو نکھارو۔اپنی رعایا پر توجہ دو اور دنیا کا لالچ چھوڑ دو"۔سلطان متاثر ہوا مگر وہ لوٹ نہیں سکتا تھا اسے لائی خر کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ اسے فتح کے جشن کا سرور لینا تھا ۔


مگر کہتے ہیں اس ساری گفتگو کا اثر حکیم سنائی پر ہو ا اور وہ اس جہاں سے کسی اور دنیا میں چلا گیا ۔ایک دیوانے نے سوئے ہوئے سنائی کو جگا دیا ۔اس کے من کی دنیا روشن ہو گئی وہ رویا اور بادشاہ کے دربار سے الگ ہو گیا اور خود کی تلاش میں ایک اور سفر پر چل نکلا ۔بہرام شاہ نے ہندوستان کا سفر کیا ، ملتان اور لاہور پر فوج کشی کی اور بہت سی سازشوں کا سامنا کرنے کے بعد با لآخر 1155میں غزنی میں داعی ملک عدم ہو گیا اس کے بعد اس کے بیٹے خسرو شاہ نے حکومت سنبھال لی ۔


آج اسلام آباد کے حکمران اور پاکستان کے شہنشاہ جس انداز سے حکمرانی کر رہے ہیں شائد انھیں کوئی لانگ مارچ یا دھرنا نہ ہلا سکے کیونکہ وہ اندھے ہیں ، انھیں اپنے عوام کے دکھ کا احساس نہیں ہے ، اخباروں اور تجزیہ نگاروں کو اپنے اخباروں اور اپنے پرگراموں کی ریٹنگ کی فکر ہے ۔ہر طرف بے سکونی ہے اور لیڈر اپنے ہی ملک کے عوام پر ظلم کی فوج کشی کرنے کی تیاری میں ہیں ۔

عمران خان اور طاہر القادری جو کہہ رہے ہیں وہ سب سچ ہے مگر کوئی ایسا نہیں کہ جو میاں نواز شریف کے دربار میں کھڑا ہو کر کہہ سکے کہ ان کی نظر کمزور ہے ۔کاغذی میگا پروجیکٹس ، کرپٹ نظام اور بد مست حکمران …….کوئی دھرنا ان کے رستے کی دیوار نہیں بن سکتا کیونکہ رات کی تاریکی میں یہ سب ملکر ساتھ چل رہے ہیں اور ان کو ان نغموں کے سرور کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی جو وہ برسوں سے نسل در نسل سنتے چلے آ رہے ہیں ۔

عمران خان نے استعفیٰ دے دیا …...سب متاثر ہو گئے ( سوائے چند کے) مگر نواز شریف اور ان کی کابینہ متاثر نہیں ہوئی ۔کوئی بادشاہ ، کوئی حکمران ، کوئی لیڈر یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ۔اگر بہرام شاہ نہیں رہا تو اور بھی کوئی نہیں رہے گا مگر تاریخ رقم کرنے والا بہت بے رحم ہوتا ہے وہ جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو آدھی رات کی سلامی اور ان دھرنوں کو اچھے الفاظ میں نہیں لکھے گا ………اِناللہِ واِنا الیہِ راجِعْون۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :