مسئلہ کشمیر آخر کیسے حل ہوگا
ہفتہ 24 ستمبر 2016
(جاری ہے)
مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے مشکل کام بھارتی قیادت کو یہ باور کرانا کہ وہ اس مسئلہ کے لئے آمادہ ہو۔ بھارت کی سول سوسائیٹی اس ضمن میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں وہاں کی سول سوسائیٹی اور حقوق انسانی کے علمبرداروں نے جموں کشمیرمیں ہونے والے ظلم کے خلاف دہلی اور بھارت کے دیگر کئی شہروں میں آواز بلند کرکے قابل تحسین کام کیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی سول سوسائیٹی ، صحافی، دانشور، حقوق انسانی کے علمبردار، سیاستدان اور عام عوام کو مل کر کشمیری عوام کے غیر مشروط حق خود آرادیت کی حمایت میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔سب سے اہم کردار یورپ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری مزید متحرک اور متحد ہو کر بھر پور سفارتی مہمسے کرسکتے ہیں۔وہ عالمی رائے عامہ کو بیدار کرسکتے ہیں ۔ جن ممالک میں کشمیری مقیم ہیں وہاں کی حکومتوں، سیاستدانوں، حقوق انسانی کی تنظیموں، میڈیا ، عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے دفاتر کو بار بار اس مسئلہ کی سنگینی سے آگاہ کریں اور ایک ایسے حالات پیدا کردیں کہ بھارت اس مسئلہ کو حل کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ مسئلہ کشمیر کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے غیر جذباتی انداز اور حقیقت پسندانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں مسئلہ کے تینوں فریقین کی مرضی کے بغیر یہ معاملہ حل ہوجائے۔ کوئی ایک فریق بھی اسے فوجی کارروائی سے حل نہیں کرسکتا کیونکہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا دوسرا یہ کہ اگر کوئی فوجی کارروائی سے کچھ علاقے پر قبضہ کربھی لے تو اسے برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔ کسی ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست کی صورت میں بھی پائیدار حل نہیں نکل سکے گا۔ تقسیم بھی اس مسئلہ کا حل نہیں کیوں ریاست جموں کشمیر پہلے ہی منقسم ہے۔ اگر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بھی جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں۔ دونوں ممالک اپنے وسائل دفاع اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے میں صرف کرتے رہیں گے۔ سکولوں، ہسپتالوں، تعلم وتحقیق کے مراکز کی بجائے ایک دوسرے کو تباہ کرنے والے اسلحہ کے انبار لگانے کی دوڑ جاری رہے گی۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ حقیقت پسندانہ حل تلاش کیا جائے۔ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ کشمیری اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ، کسی قیمت پر نہیں۔ نہ مالی مراعات نے کشمیریوں کو مطمئن کیا اور نہ ظلم نے تحریک آزادی ختم کیا۔ بھارت عالمی میڈیا کی اس آواز کو تسلیم کرلے کہ کشمیریوں کا صرف ایک مطالبہ ہے اور وہ ہے آزادی ۔ بھارت کو اس مسئلہ کے کسی آبرومندانہ حل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ جب تک دونوں ممالک اٹوٹ انگ اور شہ رگ کی پالیسی ترک نہیں کرتے مسئلہ میں پیش رفت ممکن نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کو ایک بفر سٹیٹ کی صورت دینے سے مسئلہ کا ایسا حل نکل سکتا ہے جو سب کے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ ریاست کے تمام منقسم حصوں کو ایک وحدت کی صورت میں ایک غیر فوجی خطہ بنایا جائے جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں کا ریاست میں آزادانہ عمل دخل ہو۔ اس کے لئے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کا طریقہ کار بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ اگر اس مسئلہ کو حل کرنا ہے تو پاک بھارت قیادت کو اس پر غور کرنا ہوگا وگرنہ مستقبل بھی ماضی کی محاذ آرائی اور اپنے عوام کو روٹی دینے کی بجائے فوجی اخراجات پر رقم خرچ کرتے رہیں۔ سویڈن کے تھنک ٹینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت دنیا میں اسلحہ اور فوجی سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے جبکہ اس کی کروڑوں عوام کو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لئے گھر میسر نہیں۔بھارت اگر دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے جمہوری اصولوں کو تسلیم کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کو آزادانہ رائے شماری کا موقع دینا چاہیے۔اسے اپنے بانی وزیراعظم کا وہ وعدہ پورا کرنا چاہیے جو دنیا اور کشمیریوں کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان کو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے یہ اعلان کرناچاہیے دونوں ممالک کشمیر کو ایک غیر فوجی علاقہ قرار دیں اور اسے سفارتی طور پر عالمی برادی کے سامنے رکھنے سے بھارت پر دباؤ میں بہت اضافہ ہوگا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دونوں حکومتوں کو جرات مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے اور اسے حل کرنا خود اُن کے اپنے مفاد میں ہے۔
حریت کانفرنس کی طرف سے Justice Delayed نامی ایک کتابچے پرریاست جموں کشمیر کا جو نقشہ شائع کیا گیا ہے اس میںآ زاد جموں کشمیر، پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان اور اقصائے چن کو نکال دیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی بد دیانتی ہے جس سے تقسیم کشمیر کی بُو آتی ہے۔ امید ہے کہ حریت کانفرس اپنی اس غلطی کا ادراک کرتے ہوئے آئندہ پوری ریاست جموں کشمیر کا نقشہ شائع کرے گی اور دیگر جماعتوں اور اداروں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ہوگی۔ آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر جو پوری ریاست کی نمائندہ ہونے کی دعویٰ دار ہے اسے بھی ریاست کو پورا نقشہ سرکاری طور پر شائع کرنا چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.