روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش

ہفتہ 22 جنوری 2022

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

روس اور سویڈن کے درمیان کشمکش نے خطے کے دیگر ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیا سویڈن پر روس کا حملہ کر دے گا ؟ یہ وہ سوال ہے جس پر سویڈن میں اس وقت میں بات ہورہی ہے۔روس اور یوکرائن کے تنازعہ نے خطے میں عدم استحکام پید کیا ہوا ہے۔ روس کو نیٹو کے پھیلاؤ پر تشویش ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ نیٹو کا دائرہ مزید وسیع ہو۔ سویڈن اور فن لینڈ ابھی نیٹو کے رکن نہیں اور روس نہیں چاہتا کہ یہ دونوں ملک نیٹو کا حصہ بن جائیں کیونکہ ان ممالک کے نیٹو میں جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ نیٹو روس کی سرحدوں تک پہنچ جائے۔

سویڈن اور روس کے تعلقات میں مسائل کی ایک تاریخ ہے۔ روس کی بحریہ کی جانب سے بحیرہ بالٹک میں گشت اور سویڈش بحری حدود تک رسائی نے سویڈن کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

(جاری ہے)

اسی کے پیش نظر سویڈن نے بھی اپنی مسلح افواج کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ بحیرہ بالٹک میں سویڈن کا سب سے بڑا جزیرہ گوٹ لینڈ جغرافیائی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے جو روس کی حدود کے قریب واقع ہے۔

ماضی میں روس کی جانب سے اس خطہ میں سویڈن کی بحری اور فضائی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ روس کی جنگی آبدازنے سویڈن کے پانیوں میں موجودگی ایک بڑا واقعہ ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر سویڈن نے گوٹ لینڈ میں اپنی مسلح افواج کو تعینات کردیا ہے۔سویڈن کے عوام پہلی مرتبہ اپنی مسلح افواج کو متحرک دیکھ رہے ہیں۔ ملک کو سب سے بڑے جزیرہ میں سویڈش افواج سڑکوں گشت کررہی ہیں۔

ما ضی میں بھی سویڈن اور روس کے درمیان کشمکش رہی ہے ۔ سویڈن نے اگرچہ تین سو سال سے کسی جنگ میں حصہ نہیں دیا اویہ ملک روایتی طور پر غیر جانبدار رہا ہے۔ خصوصا سرد جنگ کے دور میں سویڈن نے نے اپنی غیر جانبداری برقرار رکھی لیکن رفتہ رفتہ سویڈن کا جھکاوٴ امریکہ کی قیادت میں نیٹو کی جانب ہوتا جارہا ہے۔سویڈن اگرچہ نیٹو میں شامل نہیں لیکن اس کا اس کے ساتھ تعاون جاری ہے۔

سویڈن کی بیشترسیاسی جماعتوں کی اب رائے ہے کہ سویڈن کو نیٹومیں باقاعدہ شامل ہو جانا چاہیے تاکہ ملک کا دفاع مضبوط ہوسکے۔
سویڈن میں تشویش کا ایک اور پہلو ملک ایک ایٹمی بجلی گھر ، دارالحکومت میں شاہی محل اور بعض دیگر اہم مقامات پر نامعلوم ڈرون کی جانب سے پروازیں ہیں ۔ ان کی تحقیقات ہورہی ہیں اور تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان ڈراون کو اڑانے والے کون ہیں اور ان کے کیا مقاصد تھے۔

سویڈن کی مسلح افواج کے سربراہ کی جانب سے حال میں دئیے گئے اس بیان نے بھی ارتعاش پیدا کیا ہے کہ سویڈن کی افواج کے پاس اسلحہ، گولا بارود اور دیھر جنگی سازوسامان کی بہت کمی ہے اور اگر انہیں سویڈن کا دفاع کرنا پڑ جائے تو وہ بہتر طور پر یہ دفاع نہیں کرسکتے۔ ان کے اس بیان کے بعد بحث و مباحثہ شروع ہوگیا اور سیاسی جماعتوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ مسلح افواج کو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے رقم دی جائے۔

سویڈن کی مسلح افواج کے سربراہ نے عوامی سطح پر جو بیان دیا ہے شائد کسی اور ملک میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک تو عوام کو بے خبر نہیں رکھا جانا چاہیے اور دوسرا تمام تر معاملات حکومت اور پارلیمنٹ طے کرتی ہے۔
سویڈن میں سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ روس اور سویڈن کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔

کچھ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ روس اپنے عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹانے کے لئے کشیدگی کی فضا پیدا کررہا ہے۔ روس دنیا میں اپنا تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہے کہ وہ اب بھی ایک عالمی طاقت ہے اور بین الاقوامی معاملات میں اس کا کردار ابھی ختم نہیں ہوا۔ وہ ایسے اقدامات کرکے خطہ کے ممالک میں اپنی قوت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ سویڈن میں بہت سے لوگ اسے ایک سیاسی چال کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کی رائے میں جنگ کے امکانات نہیں ہیں۔

ایک طرف روس کی معیشت اس قابل نہیں کہ وہ ایک بے مقصد جنگ میں الجھ جائے اور دوسرا سویڈن کے ساتھ اس کا براہ راست کوئی تنازعہ بھی نہیں۔یہ کشیدگی کسی طرح سے بھی روس کے مفاد میں نہیں ۔ ایسے اقدامات سے سویڈن اور فن لینڈ نیٹو میں شامل ہوسکتے ہیں۔ روس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ فوجی طاقت دیکھانے کی بجائے ان ممالک کے ساتھ سیاسی انداز میں معاملات طے کرے۔

سویڈن کا روس کے ساتھ فوجی موازانہ نہیں کیا جاسکتا ۔ روس ایک بڑا ملک ہے جس کے پاس بڑی فوج ہے۔ سویڈن اور آبادی اور رقبے کے اعتبار ست روس سے بہت چھوٹا ہے۔ اگرچہ سویڈن اعلیٰ معیار کا اسلحہ بنانے والا ملک ہے اور اسکے اسلحہ کے بڑے خریداروں میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب اور مریکہ شامل ہیں لیکن سویڈن نے اپنی مسلح افواج کو جارحانہ جنگ کے لئے تیار نہیں کیا۔

سویڈن یورپی یونین کا اہم ملک ہے اس اعتبار سے اس کی اپنی اہمیت ہے۔
ان تمام حقائق اور شواہد کی روشنی میں امکان یہی ہے کہ حالیہ اضطراب وقتی نوعیت ہے اور صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ یہ بہت ہی کم امکان ہے کہ دونوں ملک کسی فوجی تنازعہ میں الجھ جائیں۔ دوسری جانب اس صورت حال نے سویڈن کو اپنی دفاعی پالیسی کا جائیزہ لینے پر متحرک کردیا ہے اور امکان ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرے گا اور نیٹو کے ساتھ مزید اشتراک اور قریبی تعاون جاری رکھے گا۔

سویڈن میں اس اقلیتی حکومت اقتدار میں ہے لیکن حزب اختلاف نے قومی سلامتی پر مثبت کردار ادا کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں امور خارجہ اور دفاع سے متلقہ کمیٹی نے ان تمام امور کا جائیزہ لیا ہے۔ اس سال ستمبر میں سویڈن کے عام انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت ملکی سلامتی کے حوالے سے بڑے اقدامات کرنے کی طرف توجہ دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :