مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
(جاری ہے)
ذمہ دار وہ وہ مذہبی فکر اور عقیدہ ہے جس نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈال دیا ہے اسوہ حسنہ پر عمل کرو یا نہ کرو لیکن حرمت رسول کے لئے کسی کو جان سے مار دو گے تو عاشق رسول کہلاو گے اور جنت کی بشارت ملے گی۔ اس سلسلہ میں سورہ احزاب کی آیت 61 کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اس آیت کے الفاظ قتلوا تقتیلا دہرائے جاتے ہیں۔ حالانکہ سورہ احزاب کی یہ اس آیت کا موضوع مختلف ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ میں منافقین کی جانب سے مسلمان خواتین کو منافقین کی جانب سے جب تنگ کیا جاتا تھا تو پردہ کے احکامات نازل ہوئے اور مسلمان خواتین سے کہا گیا کہ وہ چادر لے کر باہر جائیں تاکہ وہ پہچانی جاسکیں۔ اس کے بعد آیت 60 اور 61 میں یہ کہا گیا کہ اگر منافقین اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں اور بد امنی پھیلائیں تو پھر ان کے خلاف قوت کا استعمال کیا جائے۔ انہیں ریاست کی مراعات سے محروم کیا جائیاور پھر بھی اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں تو انہیں گرفتار کیا جائے اور سختی سے قتل کیا جائے۔ اس غور فرمائیں کہ جو آیات شریف زادیوں کو تنگ کرنے والے منافقین کی سرکوبی کے لئے نازل انہیں انہیں توہین رسالت کے لئے بیان جارہا ہے۔
دوسرا سوال یہ کہ اگر کوئی بدبخت گستاخی رسول یا توہین مذہب کو مرتکب ہو یا اگر کسی پر الزام ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ اس صورت میں کسی فرد یا گروہ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ خود ہی مدعی اور خود ہی قاضی بن کر فیصلہ کریں اور سزا دیں۔ اس کے لئے ریاست کا قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ اسلام میں جن سزاؤں پر عمل کرنے کا حکم ہے وہ کسی فرد یا گروہ کو نہیں بلکہ ریاست کو کہا گیا ہے۔ یہاں ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی نادانی اور جہالت کی بنیاد پر توہین کا مرتکب ہوجائے لیکن بعد میں توبہ کرلے تو کیا اس کی توبہ قابل قبول ہوگی؟ یا اسے معاف کیا جاسکتا ہے؟ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے قتل نہیں کیا جائے گا (بحوالہ ردالمختار ۴: ۲۳۶) ۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتاب احکام اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کے صفحہ ۳۴۰ پر یہی حوالہ نقل کیا ہے۔ پاکستان میں غالب اکثریت امام ابوحنیفہ کی پیروی کرتی ہے اس لئے انہیں امام اعظم کے اس اصول کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان سے باہر دنیا کے دیگر ممالک میں خصوصا یورپ اور وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت ہیں، وہیاں اگر اسلام کی توہین یا گستاخی رسول کا واقعہ ہوجائے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ ایسے واقعات کہیں بھی ہوں، اسلام نے ہمیں ایک بہترین اصول قرآن حکیم کی نساء کی آیت 140میں یو ں دیا ہے کہ” اور بیشک (اللہ نے) تم پر کتاب میں یہ (حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اْڑایا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ (انکار اور تمسخر کو چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاوٴ گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے“ ۔ اگر ہم اس حکم پر عمل کریں اور کہیں کوئی توہین آمیز گفتگو کرنے کی کوشش کرے تو وہاں سے سلجھے انداز میں واک آؤٹ کرمہذب انداز میں اپنا رد عمل دیں اور اپنے آپ کو ایسے بد بخت عناصر سے الگ رکھیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.