
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
اس کے جواب میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر تنقید کی اور اس کی حالیہ رپورٹ کو شریف خاندان کی لکھی رپورٹ قرار دیا۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے بھی نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر واویلا، بلاجواز ہے۔ کیونکہ آٹھ میں سے سات رپورٹس میں کوئی فرق نہیں ہے صرف ایک رپورٹ میں تنزلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی بدعنوانی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چئیرپرسن جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے اس رپورٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون اور ریاست کی بالادستی کی عدم موجودگی پاکستان کے کم سکور کی وجہ بنی ہے۔
یہ ساری بحث اپنی جگہ پر اور پاکستانی میں بدعنوانی کے حوالے سے مباحث سے تھوڑی دیر کے لئے توقف کرتے ہوئے تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جس پر مبصرین کی نگاہ نجانے کیوں نہیں جاتی ہے۔ پاکستان میں بدعنوانی، کرپشن اور بے قاعدگیوں کی داستانوں کے ساتھ وہاں ایک معجزہ بھی ہوا ہے جس پر اہل پاکستان کو فخر کرنا چاہیے۔ جس ملک میں اعتبار اور اعتماد کا فقدان ہے اسی ملک میں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ 152 ارب روپے کے قرضے لیتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ضمانت اور گارنٹی کے اور پھر وہ قرضے خود ہی بغیر کسی دباوٴ کے واپس بھی کردیتے ہیں۔ کیا اس پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ معجزہ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کی قیادت میں اخوت فاونڈیشن کے تحت رونما ہوا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں اخوت نے قرض حسنہ دے کر لوگوں کو اپنے پاوٴں پر کھڑا کرنے اور اپنا روزگار شروع کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا ہے اس سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ جوکبھی کسی کے دست نگر تھے اور دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے لیکن اخوت کی بدولت آج نہ صرف اپنا روزگار اور کاروبار رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کی بھی مدد کررہے ہیں۔ یہ سب اخوت کے قرض حسنہ پروگرام کی بدولت ہوا ہے۔ ضرورت مند لوگ اخوت سے قرض حسنہ لیتے ہیں اور پھر آسان اقساط پر، بغیر کسی سود کے قرض واپس کردیتے ہیں۔ قرض واپسی کی شرح 99.99 فی صد ہے جو دنیا کے کسی بھی ادارے کو حاصل نہیں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قرض دیتے وقت اخوت نہ کوئی ضمانت یا رہن اپنے پاس رکھتا ہے اور نہ قرضہ وصولی کے لئے جبر اور عدالتوں کا تعاون لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معیشت اس پر حیران ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کی یونیورسٹیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں کہ یہ کیوں کر ہوا ہے۔ وہ چئیرمین اخوت ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کو دعوت دے کر بلاتی ہیں اور یہ راز جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہی سوال جب ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سے ان کے سویڈن کے دورہ پر ہم نے کیا جب وہ اخوت سویڈن کی دعوت پر تشریف لائے تھے کہ پاکستان میں تو کسی کو ایک سو روپے ادھار دو تو واپس نہیں کرتا لیکن اخوت سے لوگ ہزاروں روپے کا قرض بغیر ضمانت سے لے کر کیسے واپس کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے کہا کہ جب ایک مرتبہ لوگوں کو اخوت کے پیغام کہ سمجھ آجاتی ہے اور ان کا اعتماد کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو پھر وہ خودبخود وقت پر اپنی قسط ادا کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ قرض واپس کرتے ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر اخوت کے معاون بھی بن جاتے ہیں تاکہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوسکے۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سے یہ سوال کیا کہ پاکستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں اخوت کے آٹھ سو سے زائد دفاتر ہر روز ہزاروں قرضے جاری کرتے ہیں اور اس وقت بھی اخوت کے فعال قرضوں کی تعداد ساڑھے ساٹھ لاکھ ہے تو ان میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے جو قرضے کی قسط واپس نہیں کرتے ہوں گے، ان کے ساتھ آپ کیا سلوک کرتے ہیں۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم قرضہ وصولی کے لئے نہ تو پولیس کی مدد لیتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں اور بہت پیار سے صرف یاد دہانی کرواتے ہیں جو کافی ہوتی ہے اور لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ ہمیں مشکل پیش نہیں آتی لیکن اگر پھر بھی کسی کو واقعی دشواری پیش آرہی ہو تو ہم اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
اخوت کے ذریعے لاکھوں لوگوں نے جو تاریخ رقم کی ہے، اس پر بھی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کی نگاہ ہونی چاہیے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے بھی اگر اخوت کے پیغام کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں تو بہتری کی امید ہے۔ علامہ نے درست ہی کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کی قیادت میں اخوت نے ملک سے غربت کے خاتمہ کے لئے عظیم کردار ادا کیا ہے اور اب اخوت یونیورسٹی کے ذریعہ جہالت ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ تربیت اور کردار سازی بھی کی جائے گی۔ یہی وقت کہ ضرورت ہے اور ہمارا مسئلہ تعلیم کا نہ ہونا نہیں بلکہ تربیت کا فقدان ہے۔ اخوت نے قوم کی تربیت اور کردار سازی کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس سے وہ معاشرہ وجود میں آئے گا جس کی ہم سب تمنا کرتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.