اپنی زبان و ثقافت سے نفرت کرنے والی قوم
اتوار 23 اکتوبر 2016
(جاری ہے)
کوئی بھی زبان علمیت کی نشانی نہیں ہوتی بلکہ یہ علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی دی جائے لیکن کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں سے نابلد رکھا جائے۔ بچوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ سویڈن میں اس حوالے سے تحقیق ہوئی ہے کہ جن بچوں کی مادری زبان اچھی ہوتی ہے وہ دیگر زبانیں بہت بہتر سیکھتے ہیں اسی لئے سویڈن میں بچوں کی مادری زبان پر بہت توجہ دی جاتی ہے اور والدین سے کہا جاتا ہے کہ گھروں میں بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان میں ہی بات کریں۔ حکومت نے مادری زبانوں کو اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا ہوا ہے اور اس مقصد کے لئے اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں جو سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو ان کی مادری زبان پڑھاتے ہیں۔ سویڈن میں پاکستانی بچے سکولوں اور کالجوں میں اردو زبان پڑھتے ہیں۔ میٹرک کے امتحان میں اردو زبان کے نمبر دیگر مضامین جیسے سویڈش زبان، انگریزی، سائنس اور ریاضی کے برابر ہیں اس لئے بچے اس پر پوری توجہ دیتے ہیں۔ سکولوں سے لیکر جامعات تک ذریعہ تعلیم سویڈش زبان ہے اور ساتھ انگریزی کو ایک زبان کے طور پر پڑھایا جاتا ہے بلکہ ایک اور یورپی زبان بھی بچوں کو سیکھائی جاتی ہے۔مادری زبان پر توجہ اور ذریعہ تعلیم اپنی قومی زبان یعنی سویڈش یہاں کے تعلیم نظام کی بنیاد ہے اور جہاں تک انگریزی زبان کا تعلق ہے پورے یورپ میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے بعد سویڈش بچوں کی انگریزی سب سے بہتر ہے۔سویڈن میں پورے ملک میں ایک ہی نصاب تعلیم ہے جسے تعلیمی اتھارٹی تیار کرتی اور نافذ کرتی ہے۔ سرکاری اور نجی شعبہ کو ایک ہی نصاب تعلیم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ارباب اختیار اور ماہرین تعلیم کو سوچنا چاہیے اور دنیا کے ترقی یافتہ اقوام سے سبق سیکھتے ہوئے ایک قومی تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔ مادری زبانوں کی اہمیت کے ساتھ اردو ذریعہ تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انگریزی زبان کی تدریس بھی توجہ مرکوز رہنی چاہیے اور اسے ایک مضمون کے طور پر لازمی پڑھانا چاہیے۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک تعلیمی نصاب ہونا چاہیے اور اس کا نفاذ یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پنجاب کو اس توہین آمیز حرکت کا نوٹس لینا چاہیے اور پنجاب بھر میں بیکن ہاؤ س کے سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین کو شدید احتجاج کرنا چاہیے جب تک کہ بیکن ہاؤ س کا دارہ اس پر معافی نہ مانگے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.