غریب اجنبی کیوں؟

منگل 13 اکتوبر 2020

Arooj Siddiqui

عروج صدیقی

قیدِ غربت میں معلق رہی زندگی میری
مجھ کو ہمت دے مولا کہ ابھی باقی ہے مسافت
کیا آپ کو معلوم ہے غریب اجنبی کیوں  ہے؟ کیا یہ پہلو کبھی کسی نے سوچا؟ غربت کوئی عیب تو نہیں، جس کو لوگ دوسروں کا عیب سمجھ کے دھتکار دیتے ہیں۔ افسوس ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں، جہاں لوگ غریب کو حقیر سمجھتے ہیں۔ جہاں لوگ غریبوں کی محفل میں اس لئے جانا پسند نہیں کرتے کے وہ امیر نہیں۔

وہ ایسے سمجھے جاتے ہیں کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ مجھے ایسے معاشرے کا حصہ بننے میں کیوں شرم محسوس نہ ہو جہاں انسانیت کا معیار محض دولت ہو؟ لوگ اگر کسی سے متاثر ہوتے ہیں، تو صرف اس کی دولت کی فراوانی دیکھ کر۔پھر یہ کہنا تو درست ہو گا کہ انسانیت مرگئی اور  معیارِ زندگی صرف دولت، مقام، مرتبہ، اور معیار تک ہی رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

عربی لغت میں غریب کا مادہ "غرب" سے لیا گیا ہے .جس کے معنی ہیں مسافر، وطن سے دور، مگر جامع اور لغوی معنی "اجنبی" مراد لئے جاتے ہیں۔


حضور اقدس حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جنت میں سب سے پہلے میری امت کے غریب لوگ داخل کئے جائیں گے۔"
لازم نہیں مجھ کو دھتکارتے رہو تم
غریب ہی سہی مگر اُمتی ہوں میں
اس طرح اجنبی وہ ہوا جس کو کوئی نہیں جانتا اور ہمارے معاشرے میں غریب کو بھی کوئی نہیں جانتا ۔ غریب وہ طبقہ ہے جس کو حقیر نظر سے دیکھا  جاتا ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پڑوس میں رہنے والا  کیسا ہے؟ کس حال میں ہے؟ اصل میں ہم ایک دوسرے سے بے خبر ہیں، تبھی تو ہم میں احساس مر گیا ہے۔ ہم صرف اپنے نفس کے لیے جی رہے ہیں " اور وہ کسی سے آگے دست سوال دراز  نہیں کرتے۔" روزِ محشر جب سوال ہو گا کہ تمہیں  جو دولت عطا کی گئ تھی، وہ کہاں خرچ کی؟ یقیناً یہ سوال بھی ہو گا کہ غریبوں کا حق بھی ادا کرنا تھا ۔

کیا وہ بھی ادا کیا؟ یا صرف اپنی ہی ذندگی بنانے میں لگے رہے ۔ہم کیوں اللہ عزوجل کو بھول بیٹھے ہیں کہ وہ ہے اور اس کی جانب سے لیا جانے والا حساب بھی برحق ہے۔ کیا ہم آخرت کا حساب بھول گئے ہیں؟ یہاں تو اردگرد  نفسا نفسی کا عالم ہے، اور آخرت میں بھی تو یہی عالم ہو گا۔ تو کیا ہم قیامت کو بُھلا کر زندگی کا ہی سوچ رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ زندگی میں ابھی تک آخرت کے لئے کیا جوڑا ہے؟ ارشاد ہے :" اور تمہارے لیے وہ ہی ہے جو تم نے آگے بھیجا۔

" تو جو لوگ اللہ کی اس مخلوق سے بےخبر ہیں کہ ان کی پُر سکون زندگی میں کچھ حق ایسے لوگوں کا بھی ہے جو کسی سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے، تو وہ لوگ سوچیں کہ وہ ابھی تو مطمین زندگی گزار لیں گے، لیکن آخرت میں کیا جواب دیں گے؟ یہ بات حقیقت بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عام انسان کو سرِ عام سڑک پر مارا جاتا ہے اور پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، تو غریب کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟  جب غریب کے گھر کی عزتیں  نیلام ہو جائیں۔

مرنے والے کو بھی معلوم تک نہ ہو کہ وہ کیوں مارا گیا؟ اور اولاد صرف اس لیے علم کی شمع سے محروم ہو جائے کہ اس کا باپ ایک معمولی غریب انسان ہے۔ گھر میں بیٹھی بچیاں صرف اس لیے دھتکاری جائیں کہ ان کا باپ ان کو جہیز دینے کی سَکت نہیں رکھتا اور مشکل سے علم حاصل کرنے والا نوجوان صرف اس لیے نوکری کے قابل نہیں سمجھا جاتا، کہ اس کے پاس دینے کو رشوت یا سفارش نہیں۔

یہ سب باتیں اور ان کا دکھ وہ لوگ کبھی بھی نہیں سمجھ پائیں گے جنھوں نے آنکھ ہی ایک ایسے گھر میں کھولی ہو، جہاں انہیں زندگی کی ہر سہولت میسر ہو۔ بے شک اسے سب اللہ کی عطا سے ملا، پر یہ ملنا بھی ایک آزمائش ہے۔
روزِ محشر یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان لوگوں کا خیال کیوں نہ رکھا جن کو ہم نے کچھ عطا نہیں کیا؟ غربت کا ٹھاٹھیں مارتا یہ سمندر امرا اور ایسے لوگوں کی گردن میں طوق نہ بنے گا جو لا پروائی سے بڑے بڑے مَحلوں میں رہتے اور آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار عطا کیا اور وہ کسی کا ذمہ دار نہیں ہے۔

یاد رکھئے، حساب ہو گا اور زبر دست طریقے سے ہو گا ۔
قارئین! میں ہرگز یہ نہیں بول رہی کہ معاشرے سے نیکی کا پہلو بلکل ختم ہو گیا ہے، مگر اکثر دینے والے ریاکار ہیں۔ وہ اور تمام دنیا والوں نے یہ پہلو سوچا کہ وہ جس کو دے رہے ہیں، بدلے میں لینے والا اس کو کیا دے رہا ہے؟ آپ کے خیال کے مطابق تو آپ اس کو دنیا بنانے کے لیے عطا کر رہے ہیں۔ آپ تو احسان کے زمرے میں سوچ رہے ہوتے ہیں، مگر یہ کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ بدلے میں وہ آپ کے آخرت کا گھر بنا رہا ہو گا۔

اگر وہ اس معاشرے کا حصہ نہ ہوتا تو کیا آپ کو اس نیکی کا موقع ملتا؟ اگر موقع ہی نہ ملتا  تو توفیق کیسے ہوتی؟ مگر ہم اپنی دنیا بنانے میں ایسے کھو چکے ہیں کہ آسانی سے حاصل ہونے والی نیکیوں کو پسِ پشت ڈال بیٹھے ہیں ۔قرآنِ حکیم میں سورۃ الذَریت آیت:١٩ میں ارشاد  ہے کہ "مسلمانوں کے مالوں میں مانگنے والوں اور محروم کے لیے حق ہے۔"
غربت کے دائرے میں جو آ گیا ہوں میں
اپنے ہی پوچھتے ہیں کون ہو بھائی؟
پس سوال کرنے والوں کو جھٹکنا منع کیا گیا ۔

اگر ہم آخرت کے پہلو کے بارے میں سوچنے لگ جائیں، تو ہر وہ انسان جو صاحبِ حثیت ہے وہ دوسروں کی مدد کرے گا ۔قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد دوسرے کا خیال رکھنا شروع کر دے تو آج کوئی بھی ایسا نہ ہو جو بے گھر سڑک کنارے اپنے بچوں کو لیے بیٹھا ہو، کوئی بھی ایسا نہ ہو جو بھوکا سوئے، کوئی بھی ایسا نہ ہو جو بغیر لباس کے، بغیر جوتے اور چادر کے ہو۔

خدارا بیدار ہو جائیں۔آخرت کا سوچیں، آخرت کے لیے جوڑیں۔ صدقہ دیں یہ بلاؤں کو ٹالتا ہے، اگر آج آپ کسی کا سوچیں گے، تو اگر کل آپ پر کوئی مشکل آئی تو اللہ آپ کا ساتھ دے گا۔ ورنہ آخرت میں کیا جواب دیں گے سوچا ہے کبھی، یا سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں؟ ہم سوچتے اس لئے ہی تو نہیں کہ وقت ہی نہیں، اور اسلام سے دور ہو چکے ہیں۔ ہم نے خود اپنے معاشرے کو مفلسی کے گرداب میں دے رکھا ہے۔

جہاں کھانے والے کو صرف کھانے سے غرض ہے کہ کہاں سے کھارہا ہے اور کس سے کھا رہا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ اخوت سے کام لیں۔کسی غریب کو بے یارو مددگار نہ چھوڑیں کہ وہ بھوکا رہ جائے اور آپ شکم سیر ہو کر کھا لیں۔ اب بھی وقت ہے بیدار ہو جائیں، آخرت کے لیے اعمال حسنہ جمع کریں۔اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :