اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اسلام کی نظر میں

جمعہ 25 ستمبر 2020

Arooj Siddiqui

عروج صدیقی

لَآإِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَاٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ  2:256
ترجمہ :دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب سننے اور جاننے والا ہے.
دین اسلام ایک بہترین اور سادہ مذہب ہے، جس میں کوئی جبر نہیں۔

اسلام نے اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل معاشرے کے قیام کا پیغام انسانیت تک پہنچایا تاکہ جو چاہے آزادانہ اس مذہب یعنی دین اسلام کو اپنا سکے۔

(جاری ہے)

پھر اگر کوئی دین اسلام میں آنا چاہے تو اُس پر کوئی زبردستی نہیں۔ کیوں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس کے تحت زندگی سہل اور سادہ ہے۔ اگر کوئی اس آسانی سے دور رہنا چاھتا ہے تو اس پر کوئی زور زبردستی نہیں۔

ہر انسان کو اُس کی زندگی آزادانہ گزارنے کا بھرپور حق ہے جو کہ اسلام بھی کہتا ہے۔ دینِ حق مکمل ہونے کے بعد حق واضح ہوگیا اور جو اسلام میں داخل ہونا چاہے اُس پر کوئی رکاوٹ نہیں۔ جو کفر میں رہنا چاہے اس پر بھی کوئی زبردستی نہیں مگر واضح رہے کے اعمال کا جواب دہ بھی انسان خود ہی ہوگا۔ جس کے لئے چند احکامات ہی بہت ہیں کہ غیب پہ ایمان لاؤ، موت برحق ہے، قیامت برحق ہے اور برپا ہو کر رہے گی۔

اب جو دین سے باہر ہے اور ان چیزوں سے انکاری ہے وہ تو کبھی بھی ان پر یقین نہیں لا سکتا جب تک وہ دین کے علم سے واقف نہ ہو جائے۔جب تبلیغ عام کیا تو اپنا پیغام سب تک پہنچایا۔ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور آپ کا اعلیٰ اخلاق ہی تھا جس کی وجہ سے آپ نے لوگوں تک حق اور سچ کی بات پہنچا دی۔ لوگ دین اسلام کی دولت سے آراستہ ہوئے۔ اقلیتوں کے حقوق سے مراد وہ لوگ ہیں جو دیگر مذاہب کے پیرو کار ہیں اور دینِ اسلام میں شامل نہیں۔

ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اقلیتوں کے حقوق کو لے کر خاص طور پر تلقین کی کہ"خبردار جس کسی نے اقلیتوں پہ ظلم کیا، اس کا حق غصب کیا، اس کو اس کی استطاعت سے ذیادہ تکلیف دی اور اگر اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروزِ قیامت میں اس کی طرف سے(مسلمانوں کے خلاف) جھگڑوں گا"( ابو داود، السنن، باب فی تعشیر١٧٠؛٣)
یہ اسلامی دستور مملکت کا حصہ ہے اور اس پر عمل پہرہ ہونا ہمارا فرض ہے کیوں کہ ایک مسلمان ہی دین کے بتائے ہر حکم کو پورا کرتا ہے اور ان کو زندگی کا شعار بنا لیتا ہے.
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضور اکرم کے دور میں ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کا قتل کر دیا۔

حضور اکرم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ "غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے"
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کے غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت ہمارا بھی فرض ہے، خواہ وہ معاشی حقوق ہوں معاشرتی یا پھر مذہبی کیوں کہ وہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کی ہر لحاظ سے حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ اخلاقی ذمہ داری ہماری مسلم مملکت کی ہی بنتی ہے۔

دین اسلام میں واضح پیغام ہے کہ جو چاہے دین میں شامل ہوسکتا ہے اور یہ مسلمان ہی ہے جو اخلاقی اقدار کو لے کر آگے بڑھتا ہے اور اسی اخلاق کی بنیاد پر انسان انسانیت کی بنیاد رکھتا ہے۔ دوسروں کے لیے ہدایت کی راہیں کھول دیتا ہے۔ انسان کو وہ کرنا ہےجو قدرت نے اُس کے ذمہ لگایا ہے، باقی کس نے حق اور سچ کی راہ میں آنا ہے تو وہ کام رب العزت کی ذمہ داری ہے۔

اللہ عزوجل نے بیشتر جگہوں پہ نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم سےفرمایا کہ: آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی ذمہ داری صرف پہنچا دینا ہے آگے وہ لوگ (جن کو دعوتِ رین دی جاتی تھی) مانیں یا نہیں اُن کی اپنی ذمہ داری پر ہے اور اس چلتی دنیا میں سب کو اپنے حصے کے کام کرنے ہیں جو سونپے گئے ہیں۔خیال رکھتے ہوئے خود بھی زندگی آسانی سے گزاریں اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں مسلم برادری کا ساتھ دیں تاکہ خوشگوار معاشرہ پروان چڑھے اور فسادات جنم نہ لے۔


مسلمان مساجد میں جانے کے لئے آزاد ہیں اور اقلیتی جماعتیں اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لئے آزاد ہیں اور کسی کا مذہب کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر اپنی زندگی اپنے عقیدے اور طرزِ عمل پر گزار دی جائے تو زندگی واقعی آسان ہو سکتی ہے۔ وہ پروپیگنڈے جو عبادت گاہوں کو نقصان دیں اور معاشرے میں فسادات کا موجب بنیں، اُن کو ختم کر دینا چاہئے تاکہ معاشرہ پُر امن رہے اور ماحول کشادہ۔ اس کے لیے ہم سب کو اپنا اپنا کام کرنا ہے، نفرتوں کو نکال باہر پھیکنا ہے اور عدل، انصاف اور حقوق کے فرائض کو یقینی بنانا ہے خواہ وہ کسی مسلمان کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :