شادی کی رسومات کی اسلامی نقطہ نظر میں حقیقت

ہفتہ 10 اپریل 2021

Arooj Siddiqui

عروج صدیقی

فکر وافکار کا نظریہ کچھ یوں بدل گیا
جس کو جو ماحول ملا وہ اس میں ڈھل گیا
اگر انسان کے جذبات اور احساسات کی منظر کشی کروں تو یہ بتانا لازمی سمجھتی ہوں انسان وہ تخلیقِ کائنات ہے جو موسم،ماحول اور ارد گرد کے ّمزاج کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے۔اس کی سوچ کا اثر ہمیشہ اس پر غالب رہا ہے۔اللہ عزوجل نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کے بھیجا اور اس کو اس کا مقام بھی بتا دیا۔

پھر یہ بات بھی اس کو سمجھا دی اس کو جو سمت درست لگے وہ اس پے چلے۔اب ہی انسان پر منحصر ہے کہ وہ چلنے کے لئے کون سی راہ منتخب کرتا ہے. کیا وہ راہ "صراط مستقیم" ہے. اگر نہیں، تو یہ لمحہ فکریہ ہے.کے ہم اب تک اس راستے پے کیوں نہیں چلے، جو ہمیں آخرت میں شرمندہ ہونے سے بچانے کا سبب بنے گا کے جب اللہ کے حضور حاضری دی جائے،تو ہمیں کسی سوال کے جواب میں ندامت محسوس نہ ہو۔

(جاری ہے)

ہمیں اپنے اعمال کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔الحمداللہ ہم مسلمان پیدا ہوۓ ہیں۔تعلیم و تربیت مسلمان ماں باپ کے ہاتھوں حاصل کی،مگر یہ  کیا ہوا کے پھر ہم یہ ہی بھول گۓ کہ ہم مسلمان ہیں۔ میں آج ان رسومات اور خرافات کا ذکر کرنے جارہی ہوں جو اکثر ہمارے ہاں فرض سمجھ کر نبھائ جاتی ہیں۔عام شادی بیاہ کے موقع پرکھلے عام بے حیائ کے ساتھ منائ جانے والی ایک بھی رسم شرعی اور اسلامی طور پر درست نہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کے ہم ان رسومات ادا کرنافرض سمجھتے ہیں تو ہمیں اپنے دین ایمان کی حفاظت کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔کیوں کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دین میں ہر نئ چیز بدعت ہے( نئ چیز شامل کرنا ) اور بدعت بہت بڑا فتنہ ہے ۔ہم تو اپنے ہاتھوں سے اپنا دین خطرے میں ڈالے بیٹھے ہیں۔اور حقیقت تو یہ ہے کے یہ ہماری خود بنائ ہوئ رسومات نہیں بلکے اپنائ گئیں رسومات ہیں جن میں سے اکثر ہم نے ہندوں سے لی ہیں۔

ہم ان بدعتوں میں پڑھ چکےہیں جن کے بارے میں حضور صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے؛ ہر بدعت گمراہی ہے اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔ہمارے ہاں آج ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں سینتیس ارب روپے لوگ شادیوں میں خرچ کرتے ہیں۔اور موجودہ حالات اس سے بھی اگے جا چکے ہیں‌۔امیر طبقہ بے جا خرچ کر کے سوسایئٹی میں اپنا مقام بنانا چاھتا ہے۔

غریب طبقہ ان کے دیکھا دیکھی ان رسومات کو فروغ دے کے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے۔اب تو رسومات کا یہ عالم ہے کے شادی جو کے ایک پاک فریضہ ہے،اس کو سر انجام دینے کے لیے ہزار رسومات کو عبور کرنا پڑھتا ہے ۔مایوں سے ان رسومات کی ابتداء ہوتی ہے اور مکلاوہ یا چوتھی کی رسم پے جا کر اختتام پذیر ہوتی ہے ۔ اور جو ان رسومات کا خرچہ برداشت کرنے   کی سکت نہیں رکھتے ، وہ یا تو قرضہ لے کر لوگوں کو خوش کرتے ہیں یا تب تک انتظار کرتے ہیں جب تک پیسے جمع نہ ہو جایئں۔

اور یہی وجہ ہے کے عمر ذیادہ ہو جانے کی وجہ سے رشتہ نہیں ہو پاتا ۔محض اتنی سی بات کرنے سے میرا موقف واضح ہو چکا ہے کے ہم صرف فرسودہ رسومات کی پیروی کر رہے ہیں۔ جن کا ہمارے کلچر یا دین سے کسی قسم کا کوئ تعلق نہیں۔ہم اللہ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " سب سے  برکت والا نکاح وہ ہے جس میں کم خرچ کیا جاۓ"ـ کیا ہم اس بات کی پیروی کر رہے ہیں جو ہمارے نبی نے ہم تک پہنچائ؟ ہرگز نہیں .... آپ صل اللہ علیہ وسلم کی بات کی نافرمانی کرنے والا کیسے خود کو مسلمان کہہ کر مطمین رہ سکتا ہے؟ ہر مسلمان کو اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے ۔

ہمیں ان رسومات کو چھوڑنا ہو گا ۔ شادی سنت کے مطابق کرنی چاہیے۔تاکہ ہماری آنے والی نسلوں میں بھی ہم سنت کو ذندہ رکھ سکیں۔ خود پر وہ لازم نہ کریں جو جائز نہیں۔ زندگی کو آسان بنائیں،دین کے مطابق صاف ستھری زندگی گزاریں۔مسلمان ہونے کے ناتے بیدار ہوں۔بقول شاعر:
حقیقت ، خرافات میں کھو گئی
یہ امت ،رسومات میں کھو گئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :