الو کے پٹھے

جمعہ 4 جون 2021

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

الو ایک دانا اور سمجھدار جانور ہے جو پرواز بھی کرسکتا ہے۔یہ ایک شکاری پرندہ ہے جو دن میں سوتا ہے اور رات کے وقت شکار پر نکلتا ہے۔ کچھ دن میں بھی شکار کرتے ہیں ۔ الو ایک وقت میں تین اطراف میں دیکھ سکتا ہے جبکہ انسان صرف 2 اطراف میں دیکھ سکتا ہے ۔ الو کی سننے کی حس بہت تیز ہوتی ہے ۔ یہ آواز کی سمت اور آنے والی آواز کے فاصلے کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔

چڑ چچڑ چچڑ چچڑ بہت کرتے ہیں۔ عمومی طور پر الوکومنحوس سمجھا جاتا ہے۔یہ محض حاسدین کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔الو ہر گز منحوس نہیں ہوتا ہے۔ یہ تو بہت خوبصورت ہے۔ الو کے نرم و ملائم پر اور ان پر بےحد حسین قدرتی ڈیزائن بتاتے ہیں کہ الو قدرت کا حسین شاہکارہے۔ دنیا بھر سے اشرف المخلوقات میں سے کوئی نہیں بتا سکتا ہے کہ الو کی منحوسیت کیا ہے۔

(جاری ہے)

محض توہم پرستی ہے۔الوپربہتان ہیںبلکہ الو کے قرب سے کئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جاپان میں الو خوش بختی کی علامت  ہے۔ہندو معاشرے میں لکشمی دیوی کی سواری سمجھا جاتا ہے۔
الوؤں کی اپنی نسل اتنی نہیں ہے البتہ خبریں ہیں کہ ناپید ہورہی ہے۔اس لئے الوؤں کی تمام تر توجہ اپنے شاگردوں پر مرکوز رہتی ہےجن کو عرف عام میں الوکے پٹھے کہا جاتا ہے۔

یہ الو کی طرح شکاری نہیں ہوتے ہیں۔بس تھوڑی بہت مارکرلیتے ہیں۔الو کی طرح تین اطراف کی بجائے صرف ایک طرف دیکھتے ہیںجو انہیں کہا جاتا ہے۔چڑ چڑ یا چچڑ چچڑ نہیں کرتے ہیں ۔وہی بولتے ہیں جو انہیں بولنے کو کہا جاتا ہے۔انہیں طوطے کی طرح جو رٹایا ہوتا ہے ۔وہی ان کی کل کائنات ہوتی ہے۔خود سوچنے ،سمجھنے اور دیکھنے کی زحمت بالکل نہیں کرتے ہیں۔

بنیادی طور پر شریف النفس ہوتے ہیںمگر ان کی خواہشات کچھ زیادہ  ہوتی ہیںاور چاہتے ہیں کہ تمام تر خواہشیں پوری ہوں اور پوری بھی کسی سے ہوںیعنی کوئی اور کرے ۔ساری عمر خوشامد اور چاپلوسی میں گزار دیتے ہیں۔
الوکے پٹھے اپنی خواہشوں کی تکمیل کےلئے دوسروں کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ایسی امیدوں کے سہارے رہتے ہیں جو کبھی پوری ہونے والی نہیں ہوتی ہیں۔

چھوٹے چھوٹے نوالوں کےلئے جی حضوری کرنا محبوب مشغلہ رکھتے ہیں۔کبھی کبھی فیض یاب اس قدر ہوتے ہیں کہ زمین سے آسمان تک پہنچ جاتے ہیںاور نامی گرامی بن جاتے ہیں۔انسانوں سے انہیں شدید نفرت ہوتی ہے۔زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ باتوں میں ہی کئی ملک فتح کرلیتے ہیں۔ جھوٹ کی سرفرازی میں عظمت خیال کرتے ہیں۔سچ سے ڈرتے ہیں ۔سچ بولنے والوںکی جان لینا سعادت سمجھتے ہیں۔

یہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔
یہ عجیب الخلقت پچھلے چند سالوں سےبڑی تیزی کے ساتھ ابھری ہے۔زندگی کے ہر شعبہ میں بکثرت نظر آتی ہے۔نر مادہ میں ابہام رکھتے ہیں ۔نر ہے تو مادہ نظر آنے کی کوشش میں ہوگا اگر مادہ ہے تو نربننے کی سعی لاحاصل میں ہے۔جنہیں وہ اپنا شوق یا پھر یوں کہتے سنا ہے کہ ہر کسی کااپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے۔شاید وہ اپنے اپنے نظریہ کے موجب ہی خود کو نظریاتی بھی کہتے ہیں۔

خود کو کچھ بھی کہیں ان کا حق ہے۔جو مرضی بوجھ اٹھاکر رکھیں ۔ مگر جھگڑا اس بات کا ہے کہ وہ اپنے مظاہر میں اس بات پر بضد ہوتے ہیںکہ سب ان کے جیسا ہوجائیں پھر انہیں امان مل سکتی ہے۔بصورت دیگر وہ علاقہ چھوڑ جائیں اور رہنا ہے تو بولنا نہیں ہے۔خاموشی سے اپنی زندگی کریں ۔اگر بولنا ضروری ہےتو پھر ہماری اجازت سے بولیں ۔انہیں کیا معلوم کہ ہواؤں کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔مندرجات محض تفریح طبع کےلئے ہیں۔مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :