اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ

پیر 31 مئی 2021

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

اسد طور پر حملہ ہر صورت میں قابل مذمت ہےاور گھر میں گھس کر مارنا انتہائی تشویشناک ہے ۔تشدد کی ہر شکل معاشرے اور ملک تباہ کردیتی ہے۔قومیں بکھرجاتیں ہیں۔صحافیوں پر حملے معمول بن گیا ہے۔اسد طور پر حملے کی ویڈیو بھی سامنے آچکی ہےجس میںکئی پہلو واضح ہیں۔ویڈیو کی مدد سے حملہ آوروں کو آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔تحقیقات کے بعد اصل حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے کہ حملہ کیوں کیا گیاہے۔

وجوہات کیا ہیں اور حملہ آور کون ہیں۔یہ کام مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروںکا فریضہ ہے۔اداروں نے فرض ادا نہیں کیا ہے۔اس کے پچھے کیا وجوہات ہیں کہ ملک کے شہری پر گھر میں گھس کر تشدد کیا گیا ہےمگر اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔اداروں کا طرز عمل بھی کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔

(جاری ہے)

مگر صحافتی تنظیم کے مظاہرے نے بھی شک وشبہات پر مبنی سوالات چھوڑے ہیں کہ جیسے سب کچھ پہلے سے طے تھا۔


ایک پہلو یہ ہے کہ صحافی یا پروڈیوسر پر تشدد ہوا  جس پرصحافیوں کا احتجاج آئینی اور قانونی حق ہے۔احتجاج کا بنیادی مقصد ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ریاست کے اداروں سے انصاف کی مانگ کی جاتی ہے۔پہلا مطالبہ تشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کاکیا جاتا ہےتاکہ تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جائیں اور قانون کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

ٹریڈ یونینز یا پیشہ ورانہ شعبہ جاتی ایسوسی ایشنز کا طریق ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہ کیے جائیں احتجاج جاری رکھا جاتا ہے۔کسی قسم کی مصالحت یا مفاہمت نہیں کی جاتی ہے۔مختصر دورانیہ کے احتجاج سے کیا مقاصد حاصل کیے گئے ہیں اور کیا مقاصد حاصل ہوئے ہیں۔مقدمہ درج ہوگیاہے۔حملہ آوروں کے بارے معلوم ہوا ہے۔کوئی قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔

اگر ان سوالوں کے جواب نہیں میں تو احتجاج ختم کیوں کیا گیا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ احتجاج کے دوران مقررین نے کیا مطالبات کیے ہیں۔تحقیقات سے پہلے سب مقررین کو یقین تھا کہ صحافی پر حملہ عسکری اداروں نے کرایا ہے۔مقررین نے سیاسی تقرروں میں عساکر کو سخت لہجے میں ہدف نقید بنایا ہے۔پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایسا لیجہ شاید نوازشریف کا بھی نہیں تھا۔

مقررین کی تقرریوں کا فائدہ کس کو پہنچا اور موضوع سخن کون بنا اسد طور یا مقررین پر بحث ہو رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہر صحافی سیاسی اور نظریاتی رجحانات رکھتا ہے۔مگر صحافی کو صحافتی انداز ہی اپنانا چاہیئے ۔
تیسرا پہلو سوال طلب ہے کہ اگر تشدد خفیہ اداروں کی کارروائی ہے تو اس قدر غیرمنظم اور کھلے عام گھر میں گھس جانا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی پرواہ نہ کرنا محض ادارے کی بدنامی مطلوب تھی۔

اتنے بڑے ادارے کاصحافی پر اتنا جذباتی پن سمجھ سے بالا تر ہےکہ پلاننگ کے بغیر ہی چڑھ دوڑے اور مارکٹائی کرکے آگئے ۔اگر خفیہ ادارے کی کارروائی نہیں ہے تو ادارے کا محض یہ کہہ دینا کہ ادارہ  ملوث نہیں ہے ناکافی ہے۔ادارے کو اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ادارے کی ساکھ کا مسلہ ہے۔ادارے پر براہ راست انگلیاں اٹھائی گئیں ہیں۔
ادارے کو اپنی صفائی دینے کی بجائے حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔اس پر انتہائی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی ۔مگر افسوس کہ ایسا لگتا ہے ۔ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :