ہم کیوں پیچھے رہ گئے؟

منگل 8 دسمبر 2020

Attiqa Zafar

عاطقہ ظفر

پاکستان کی آزادی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عظیم لوگوں کی پیدائش ہونا رک گئی ہے.اگر ہم آزادی کے دور کے بعد کا جائزہ لیں تو ہمیں علاقائی اور عالمی سطح پر کوئی عظیم شخصیات ابھرتی ہوئی نظر نہیں آتی .کبھی ہم نے سوچا کہ اس کے پیچھے کون عوامل کار فرما رہی ؟ شاید لوگوں نے سوچا ہو لیکن اپنی بات ارباب حل وعقد تک نہ پہنچ سکی ہوں یا پھر ہمیں ایسے نظام کاحصہ بن چکے ہیں جس میں ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلاحیتیں ہی مفقود ہو چکی ہیں ، بہرحال میرے نزدیک اس سارے علم کی ابتدا اور انتہا ہمارا تعلیمی نظام ہیں اگر ہم اس کو واقعات اپنا المیہ سمجھیں تو.
وائے ناکامی متائے کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام  ہمارے بچوں کا ذہنی اور علمی قتل عام شروع کر رہا ہے جس کے چند بنیادی وجوہات ہیں،
1 مضامین کی بھرمار
2 انگریزی زبان کی غلامی
3 بے مقصد حیات
اگر ہم مضامین کی بھرمار کی بات کریں تو آج کا بچہ پہلی جماعت سے ہی اس کو سات مضامین کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جس میں اردو، انگلش ، میتھ، سائنس ،سوشل سٹڈیز ،کمپیوٹر اور اسلامیات شامل ہیں .

جب کہ اس بچے کی ضرورت صرف اتنی تھی کہ اس کو اردو (اگر بہت ضروری تھا تو )انگریزی اور میتھ کی بنیادی تصورات سے آگاہ کر دیا جاتا . پھر بدتریج چہارم جماعت تک اس کو ان تینوں بنیادی مضامین میں پڑھنے ،لکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر دی جائے , اس طرح وہ بچہ آئندہ چل کر کسی بھی مضمون کی منادی تصورات کو سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہ کرتا اور جن اداروں نے اس نظام کو آج بھی اپنا رکھا ہے ان کے بچوں کو ٹیوشن کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ چیزوں کو سمجھ کے پڑھنے کی عادی ہو چکے ہوتے ہیں .


لیکن ہمارا موجودہ نظام طالب علم کو پہلی جماعت سے ہی اس بات پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ رٹے پر اپنی تعلیم کی بنیاد رکھے اور اس کے ساتھ ہی ظلم یہ ہے کہ اس کو جماعت کا امتحان پاس کروانے کے لیے نصاب کو تر نوالہ بنا کر اس کے منہ میں ڈالنے کی عادت بنا دی جاتی ہے . جس کے نتیجے میں وہ اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی قابل ذکر شخصیات پروان ہی نہیں چڑھ پاتی.
اور اسی طرح اگر ہم انگریزی کی غلامی کی بات کریں تو یہ وہ لعنت ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بڑے دماغوں کا پیدا ہونا رک گیا ہے کیونکہ ایک طالب علم کی قابلیت کا معیار انگریزی زبان بولنے اور لکھنے کو بنا لیا ہے جبکہ عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے انگریزی صرف گنے چنے چند ممالک کی قومی زبان ہے ان کے علاوہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زبانوں میں تعلیم دے کر ترقی کی منازل طے کئے ہیں .

جس میں ہمارے سامنے چائنا ،جاپان ،جرمنی ،فرانس ،روس اور بے شمار دوسری یورپی ممالک زندہ مثالیں موجود ہیں .اسی طرح پیچھے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں دنیا میں کوئی ایسی ترقی یافتہ قوم نہیں گزری جس نے کسی غیر زبان میں تعلیم دے کر ترقی کی منازل طے کی ہو . اس وجہ سے بھی ہمارے بچے انگریزی کے غیر ضروری دباؤ میں آ کر اپنی ساری صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں .


تعلیم کے مقاصد میں جو باتیں سرفہرست ہیں اور جو ترقی یافتہ ممالک نے اپنا رکھی ہیں ان میں اپنے قومی اقدار اور تہذیبی روایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا .
طالب علم کو اس قابل بنا دینا کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے معاش کو حاصل کرنے کے قابل ہو جائے اور اپنے ملک کے ایک وفادار اور ذمہ دار شہری بن سکیں .
ان مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نا تو ہم اپنی قومی، دینی ،معاشرتی روایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ,اور نہ ہی ہمارا طالب علم تعلیم کی تکمیل کے بعد اس قابل ہوتا ہے کہ اپنے معاش کا بندوبست خود سے کر سکے .

بلکہ وہ اپنی ڈگری اٹھائے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے ۔

(جاری ہے)

اور ہماری تعلیم کا واحد مقصد یہ رہ گیا ہے کہ ڈگری حاصل کی جائے اور پھر نوکری کی تلاش کے پیچھے لگ جائے اور نہ ہی ہم نے اپنی اگلی نسل کو اپنے ملک کا وفادار اور ذمہ دار شہری بنا سکے ہیں ۔
کاش کہ ہمارے ارباب حل و عقد سر جوڑ کر بیٹھیں اور ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا ہم اپنی اگلی نسلوں کو کامیابی کی طرف لے جا رہے ہیں یا پھر ان کا ذہنی قتل عام کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :