ماحولیات کی تبدیلی کے عورتوں پر اثرات

پیر 16 نومبر 2020

Ayesha Khan

عائشہ خان

موسم کی تبدیلی اور ماحولیات میں تبدیلی صرف انسان زندگی پر ہی اثر نہیں کرتی بلکہ دنیا بھر کی معیشت اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ موسم کی تبدیلی خواتین کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
انٹر گورنمنٹ ان پینل کلائمٹ چینج(IPCC) کے رپورٹ کے مطابق موسموں اے اثرات دنیا کے مختلف حصوں، پیشوں، نسلوں اور ہر عمر کے افراد پر مختلف ہوتے ہے۔

ماحول کی تبدیلی کیاثرات ہر ملک پر ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ ترقی پذیر ملک اور غریب لوگوں پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اگر خواتین اور غربت کے ماحول کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس دنیا میں غریبوں میں خواتین کی تعداد 70 فیصد ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کا مرد اور عورت پر مختلف انداز سے اثر ہوتا ہے اس کے انحصار خواتین کے عمرحالات اور ثقافتی اقتدار سے ہے، لیکن بدقسمتی سے موسمی تبدیلیاں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے تمام پروگرام، پالیسیاں خواتین کا خیال اور ان کی شمولیت کے بغیر بنائی جارہی ہیں
اگر دیہات کی عورتوں کی بات کی جائے تو یہ وہ خواتین ہی ہوتی ہیں جس کی صبح مرد سے پہلے ہوتی ہے اور گھر کے تمام کام مثلا: دور سے پانی لانا، مویشی چرانا، ان کا دودھ نکالنا، دہی اور لسی بنانے تک کا کام عورت کا ہے اور اس کے بعد گھر کا کھانا بنانا،کپڑے دھونا، بچوں کو دیکھنا یہ سب بھی عورت کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

ان سب کام کے ساتھ ساتھ کھیتوں کی ہریالی بھی اس کے ہاتھوں کی محنت ہوتی ہے۔ کھیتوں میں کام کرنے سے اس کی صحت پر اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ کپاس کی فصل چنتی ہیں۔ پورے سندھ میں کپاس کی فصل کو خواتین ہی جنتی ہیں اور جب وہ کھیت میں آتی ہیں تو اپنے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے آتی ہیں اور پورے دن دھوپ میں کھڑے ہو کر فصل چنتی ہیں۔ جس سے ان کی جلد دھوپ کی تپش سے خراب ہو جاتی ہے اور سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ جو اس کپاس پر زہریلا اسپرے کیڑوں کو مارنے کے لیے کیا جاتا ہے وہ وہاں مسلسل کھڑی ہوتی ہیں جس سے ان کی صحت پر خطرناک اثر پڑتا ہے۔

کئی لوگوں نے اس کی وجہ پوچھنی چاہی کہ کپاس کی فصل کو عورتیں ہی کیوں چنتی ہیں تو کوئی مناسب جواب نہیں ملا بس یہی کہا گیا ہے کہ کپاس کی فصل چنا عورتوں کا ہی رواج ہے۔ شاید یہ رواج اس لیے ایسا ہے کہ عورتیں اپنا کام بہت نفاست اور جلدی کرتی ہیں کیوں کہ روئی جیسے ریشم کپاس کو نازک ہاتھ سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ یہ صفت عورت میں ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام بہت سلیقے سے، صفائی اور جلدی سے کرتی ہیں۔

آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے عورتوں کو مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے سبب خواتین کے بہت سارے بنیادی حقوق جیسیتعلیم، غذائیت اور صحت متاثر ہوتے ہیں۔ یہ خواتین پورے سال محنت کر کے اپنے لئے کچھ پیسہ کماتی ہیں تاکہ اپنی غذائیت اور اپنی ادویات یا گھر کا گزر بسر کر سکیں۔
اگر غور کیا جائے تو دیہاتی خواتین کو شہری خواتین کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہے جبکہ شہری خواتین ذہین اور خودمختار ہوتی ہیں تو اگر وہ چاہے تو ماحول کی بہتری کے لیے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن اہم کام کر سکتی ہے۔

اگر وہ چاہے تو معاشرے کا ایک ایسا حصہ بن سکتی ہیں جس سے سے کافی سارے مسائل وہ خود حل کر سکتی ہیں۔ اگر عورت سمجھداری سے کام لیں تو وہ کافی چیزوں کو اچھے سے چلا سکتی ہے۔ جیسے اپنی اشیائے ضرورت کو تھوڑا سا گھٹا لیں تو غریب ملک کی غربت تھوڑی کم ہو جائے گی۔ شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے۔ عورت چاہیتو آلودگی سے بچاؤ کے لیے کام کر سکتی ہے پانی کم استعمال کر کے، کچرے کا مناسب بندوبست اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

اور اسی طرح اگر وہ گھروں میں کیڑے مار ادویات کا استعمال ختم کر کے اس کے کوئی اور گھریلو آسان ٹوٹکے استعمال کر سکتی ہے۔ یاد رکھیے یے کہ آپ کے ہر عمل کے اثرات عالمی سطح تک جا پہنچتے ہیں اس لئے یہ کہہ کر جان چھڑانا کہ اس سسٹم میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یقین کرے آپ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں بلکہ آپ ہی کچھ کر سکتے ہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ میری حکومت سے گزارش ہے کہ کہ کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے جس میں عورتوں کو بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے تو شاید کوئی بہتری کی صورت نکل سکے اور خواتین کم متاثر ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :