جلد شادی کرنے کے مسائل

منگل 5 جنوری 2021

Ayesha Khan

عائشہ خان

پاکستان میں پانی، بجلی، گیس اور سیاست کے علاوہ بھی بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس اکیسویں صدی میں ہیں جہاں ہم اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں اور اپنے زیادہ تر فیصلے خود کر سکتے ہیں۔ اس دور میں ہم نے لوگوں کی ضروریات کے لئے بہت سی چیزیں ایجداد کی ہیں لیکن ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو ان ایجادات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اپنی زندگی کسی گائے، بھیس کی طرح گزار رہے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے لئے فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے اور زندگی گزارنے کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ اس میں سے ایک اہم مسئلہ نو عمر بچیوں کی شادی کرنے کا بھی ہے جس کو حل کرنا بہت ضروری ہے لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ یا ہمارے حکمرانوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔

(جاری ہے)


یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کم عمری میں شادی کرانے میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔

ایک ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریبا 708 لڑکوں اور لڑکیوں کی زبردستی شادی کرائی جاتی ہے. جس میں سے 21 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال سے پہلے اور تین فیصد لڑکیوں کی 15 سال کی عمر سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے. جو غیر قانونی ہے اور آرٹیکل نمبر 310 کے تحت جرم ہے جس کا جرمانہ 500،000 ہے۔اور قانون کے مطابق لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال ہونی چاہیے پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس پر نظر ثانی نہیں کی جاتی۔


مسائل:
کم عمری میں شادی کی تعداد بڑھنے کی ایک بڑی وجہ غربت ہے کیونکہ کچھ والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ کچھ لوگ تو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ جلد شادی کرانے سے بچیوں کی ذہنی اور دماغی حالات پر کیا اثر پڑے گا۔ ان میں سے بیشتر لوگوں کو تو اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا کہ یہ غیر قانونی ہے۔

جلد شادی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی بچیوں کی شادی میں تاخیر نہیں کرنا چاہتے اور ان کی تعلیم جلد ختم کرا کر ان کی شادی کرا دیتے ہیں اس ڈر سے بھی کہ کہیں وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے خاندان کا نام خراب ہو۔ اور کچھ تو اس لئے بھی کم عمرلڑکیوں کی شادی کروا دیتے ہیں کہ ان کا رواج ہوتا ہے کہ بچی 13یا 15 سال کے ہو جائے تو اس کی شادی کر دو۔

سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس سے ہماری معیشت پر بھی بہت اثر پڑتا ہے۔ اگر یہ کچھ پڑھ کر ہمارے ملک پر اپنا کچھ ہنر سرف کریں تو ہمیں کتنا فائدہ ہوگا۔ لیکن جلدی کی وجہ سے نہ تو یہ خود ہمیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ ایک قابل نسل دیتی ہیں۔ تو ایسے تو بس ہمارے ملک کی آبادی ہی بڑھ سکتی ہے حالات نہیں بدل سکتے۔
یہ مسائل ہمیں زیادہ تر گاؤں دیہات میں نظر آتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شہر میں ایسے لوگ نہ ہوں میں نے شہر میں بھی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے اور ان کے بارے میں سنا بھی ہے۔

جیسے میں آپ کو اپنے دوست کا آنکھوں دیکھا حال بتاتی ہوں یہ ایک لڑکی کے بارے میں ہے۔
میری دوست کے ہمسائیوں میں ایک بہت غریب لوگ رہتے ہیں۔ جن کی بیٹی کو میری دوست قرآن سیکھا رہی ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ جب وہ اس کے پاس آئی تو اسے اس کے علاوہ کچھ نہیں پتہ تھا کہ اللہ ایک ہے۔ اسے یہ تک نہیں پتہ تھا کہ ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں، یا ہم کون ہیں یا مسلمان کون ہوتا ہے۔

ذرا سوچئے ہم دوسروں کو انسان اور مسلمان بنا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں تو ابھی اپنوں کو مسلمان اور انسان بنانے کی ضرورت ہے۔
اس بچی کا نام جنت ہے اور اس کی عمر 13 سال ہے تو اب اس کے بابا اس کی شادی کرا رہے ہیں کیونکہ یہ انکا رواج ہے کہ جب بچی 13 سال کی ہوجائے تو اس کی شادی کرا دی جائے اور کچھ غربت کی وجہ سے بھی لیکن وہ اس کو اس غربت سے نکال کے بھی غربت میں ہی بھیج رہے ہیں۔

تو میری دوست وہاں گئی اور انہیں سمجھایا کہ یہ غیر قانونی ہے۔ ابھی تو وہ قرآن سیکھ رہی ہے۔ ابھی تو اس کو زندگی گزارنے کے اصول ہی نہیں پتا۔ اس کی شادی نہ کروائیں کم ازکم یہ اپنا قرآن پاک مکمل کر لے۔ اس کے بابا اس بات پر راضی ہوئے ہیں کہ جب اس کا قرآن مکمل ہو جائے گا تو وہ اس کی شادی کر دیں گے تو آپ اس بات پر غور کریں کہ ہمارے ملک میں کس قدر تعلیم کی کمی،غربت اور عجیب و غریب ہیں۔


اب تھوڑی اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں کہ اسلام میں بھی یہی ہے کہ جب بچی بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کرا دیں۔ یہ درست ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اسلام میں زبردستی سے منع کیا گیا ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی دونوں میں سے کسی کی رضامندی شامل نہیں تو آپ ان سے زبردستی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ پڑھنا چاہتی ہیں تو آپ کو چاہیے کہ آپ اس کو تعلیم اور اس کی تربیت اچھی کریں۔

کم از کم اس کو اس بات کا شعور تو ہو کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ اپنی آنے والی نسل کو کیا تربیت دینی ہے۔ کیونکہ نسل عورت سے ہی چلتی ہے اگر عورت جاہل ہوگی تو آنے والی نسل بھی جاہل ہوگی۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ کم سے کم اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کے طریقے سے آگاہ کریں۔ تاکہ ان کا اور آنے والی نسل کا مستقبل سنور سکے۔
مسائل کے حل:
ویسے تو اس کے بہت سے مسائل لوگوں نے درج کیے ہیں اور ہاں کچھ لوگوں نے حل بھی بتائیں ہونگے مگر مسئلہ یہ آتا ہے کہ یہ مسائل حل کیسے ہوں۔

میرا اس مسائل کے کچھ حل لکھنے کا مقصد ان غریب لوگوں کے لئے نہیں ہیں جو یہ پڑھتے ہی نہیں سکتے۔ یہ میں ان تمام اپنے بہن بھائیوں کے لیے لکھ رہی ہوں جو اللہ کے فضل سے علم کے زیور سے آراستہ ہیں اور لوگوں کو بھی اپنے علم و شعور سے آراستہ کر سکتے ہیں۔
پہلی چیز ہے غربت۔ اگر کوئی اپنی بچیوں کی شادی غربت کی وجہ سے کرا رہا ہے کہ اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پال سکے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی مالی مدد کر دیں۔

جتنا بھی ہو سکے۔ دوسرا مسئلہ تعلیم کی کمی کا ہے۔ تو اگر ہم ان کی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انہیں کچھ تو سکھا سکتے ہیں زندگی گزارنے کے اصولوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ کچھ ان کے لیے ایسا کر سکتے ہیں کہ آنے والی ہماری نسلیں یوں بیکار نہ ہوں۔ جس سے ہم کچھ حاصل وصول ہی نہ کر سکیں وہ بس ہمارے معاشرے اور ملک کے لیے بوج ہوں۔

اور اگر کوئی رواج کی وجہ سے شادی کر رہا ہے کہ ہمارے خاندان میں تو برسوں سے یہ روایت ہے۔ کم سے کم ہم ان لوگوں کو اس بات کا علم دے سکتے ہیں کہ یہ ان بچوں کے لیے کتنا نقصان دہ ہے اور قانونی جرم بھی ہے۔ یہ غریب لوگ لاعلم جب تک رہیں گے جب تک ہم ان کو کوئی علم نہیں دیں گے۔ یہ ہمارا مسلمان ہونے کا فرض ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو غلط کام سے روکیں اور اچھے کام کرنے کی تلقین کریں۔


 درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ
اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں!
میرا یہ لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم خود کو فضول نہ سمجھیں یا یہ کے ہمارے کرنے سے کیا تبدیلی آئے گی۔ ذرا سوچیے اگر آپ ایک بندے کو سیدھی راہ پر چلا دیں گے تو آنے والی کتنی نسلیں سیدھی راہ پر جائیں گی۔ ہمارے ملک کا ایک ایک فرد بہت قیمتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے کسی انسان کو بیکار نہیں بنایا اور اسے کچھ ہنر دے کر بھیجا ہے یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام حکومت یا کسی ادارہ کے نہیں ہیں یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ غلط چیزوں کو درست کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :