
انڈیا کے نئے دوست اورسازشی منصوبے
پیر 24 اگست 2015

بادشاہ خان
یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے سے جن ممالک کا زیادہ نقصان ہونا ہے ان میں سر فہرست انڈیا ہے جس کی بندرگاہ نواسیشی پورٹ کی اہمیت کم ہوجائے گی ،اومان کی سلالاپورٹ اور دبئی پورٹ کی اہمیت کم ہوجائے گی،اس کی ایک بڑی وجہ گودار کا ڈیپ سی پورٹ ہونا بھی ہے یہاں مدر ویسل بھی ڈائریکٹ آسکتا ہے،جو کہ بہت بڑا جہاز ہوتا ہے جو دنیا کی کئی پورٹس پر لنگر انداز نہیں ہوتے باہر سمندر میں کھڑے ہوتے ہیں جس سے چار سے پانچ دن بڑھ جاتے ہیں گودار پورٹ سے ہماری گڈز کا ٹرانزٹ ٹائم بھی کم ہوجائے گا ،پاکستان کو اللہ نے گودار کی شکل میں بڑی نعمت دی ہے ،اس لئے بھی پاکستان کے دشمن بہت ہیں،کیونکہ اس پورٹ کے ذریعے ہمیں سینٹرل ایشیا ء سے جو فوائد اور منافع ملے گا اس وقت ہم سوچ بھی نہیں سکتے، روس جو کہ ماضی میں گرم پانی کی تلاش میں تھا اب گودار کی شکل میں قریب کرنے والا پورٹ ہے ،انکا مال یہاں آئے ہمارا وہاں جائیگا،اور اسی ترقی کے سفر کو ناکام بنانے کے لئے ملک کے حالات خراب کئے جارہے ہیں تاکہ یہ بندرگاہ فعال ہی نہ ہوسکے۔
(جاری ہے)
جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء دنیا کے وہ خطے بن چکے ہیں کہ جس میں ،امریکہ اور اس کے اتحادی ،جہادی گروپس،پاکستان ،چین وروس سب کے مفادات میں ٹکراو ہے،جبکہ عرب ممالک بھی اب ایسا لگتا ہے کہ الگ الگ اتحادوں میں شامل ہونے جارہے ہیں،کہ شائد اس طرح ان کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں محفوظ ہو جائیں؟یہ وہ پس منظر ہے کہ جس میں عرب امارات نے امریکن لابی جس میں اس وقت انڈیا فرنٹ فوٹ پر ہے شامل ہوچکا ہے، اب اس منظر نامے میں سامنے انڈیا اور ایران ہونگے جہاں ضرورت انڈیا کی ہوگی وہاں ڈیل انڈیا کرے گا اور جہاں ایران کا اثررسوخ ہوگا وہاں سامنے ایران ہوگا اور ان کے پیچھے وہ تمام لابی ہوگی جس سے ان ممالک میں نفرت کی جاتی ہے اسی لئے امریکہ افغانستان میں ایران کے ساتھ انڈین حمائتی لابی کو مضبوط کررہا ہے،اب سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ہندوستان کا کردار امریکہ کیوں چاہتا ہے؟ اس کے کیا مقاصد ہیں؟ اور امریکی صدر کاچند ماہ قبل یہ کہنا کہ افغانستان میں قابل اعتماد پارٹنر کی ضرورت ہے،کیا یہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں؟ کیا پاکستان جس نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی وہ بے کار گئیں ؟ ایسا ہوچکا ہے ،پاکستان کو نظر انداز کیا جائے گا اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر واضح تقسیم نہ ہوتیہزاروں کلومیٹر دور امریکہ ہندوستان کو گلوبل پارٹنر قرار دے رہا ہے تو ہم قریبی روس،چین ومسلم ممالک کے اتحاد کو کیوں نہیں بنا سکتے ،حالانکہ ہمارے مفادات کاروبار اور مسائل تقریبا مشترکہ ہیں نیادور ہے نئے معاہدے ہیں ہمارے خارجہ پالیسی بنانے والے کب امریکہ کے علاوہ سینٹرل ایشیا کی طرف متوجہ ہونگے ، مسئلہ پھر بھی ہمارا ہے کہ ہم کہاں ؟ کس مقام پر؟ اور کس کے ساتھ؟اور کون ہمارے ساتھ؟ ہے اور وقت تیزی سے گذرتا جارہا ہے ، پاکستان کے مفادات اور ضروریات مسائل سے کسی کو غرض نہیں، ایران چاہتا ہے کہ گیس پائپ لائن شروع کی جائے، دوسری طرف ایران انڈیا کے تعاون سے چاہ بہار ر بحری بندرگاہ کو ترقی دینے کے لئے ہندستان سے معاہدہ کر چکا ہے ، گوادر بندرگارہ کو ناکا م بنانے کے لیئے دشمنان پاکستان کے ساتھ دوست نما دشمن بھی فعال ہیں، سفارت کاری کی اس جنگ میں ہماری تیاری اور لائحہ عمل کیا ہے؟وہ تو پر تول چکے ہیں اورکمان ہمارے پاس ہے ،اور چند دوست بھی ہیں بس انکے ساتھ چلنا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
بادشاہ خان کے کالمز
-
معلومات کے حصول کے حق کا تحقیقاتی صحافت میں استعمال
جمعرات 17 مارچ 2016
-
تقسیم در تقسیم دنیا کا مستقبل
جمعہ 18 دسمبر 2015
-
مشرق وسطی کی جغرافیائی توڑ پھوڑ
جمعرات 5 نومبر 2015
-
وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور ڈاکٹر عافیہ
بدھ 28 اکتوبر 2015
-
راکھ کے نیچے آگ کی چنگاریاں
ہفتہ 24 اکتوبر 2015
-
فلسطین سے کشمیر تک مغرب کا دہرا معیار
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
مسلم ممالک پر سپرپاورز کی بمباریاں
جمعرات 8 اکتوبر 2015
-
سانحہ منیٰ اور اس کے اثرات
بدھ 30 ستمبر 2015
بادشاہ خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.