پرائمری تعلیم کی بہتری کے لئے چند تجاویز‎

جمعرات 25 جون 2020

Bilal Shabir

بلال شبیر

کسی بھی عمارت کی مضبوطی اور پائیداری کا اندازہ اس میں استعمال ہونے والے مواد اور اس کے بنیادی ڈھانچے سے لگایا جا سکتا ہے، اگر بنیادیں کمزور ہو جائیں تو وہ عمارت یا کوئی بھی چیز زیادہ دیر چل نہیں سکے گی۔ اسی طرح پرائمری ہمارے تعلیمی نظام میں بنیادی ڈھانچے کا کردار سرانجام دیتا ہے، تعلیمی نظام پر بہت بار بات ہوچکی لیکن غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ملک بھر میں گورنمنٹ سکولز میں میٹرک تک تعلیم مفت ہونے کے باوجود جہاں بہت سے بچے پرائمری کی تعلیم حاصل نہیں کرتے وہاں پرائمری درجے میں داخلہ لینے کے باوجود تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

ڈراپ آؤٹ کی اصطلاح زیادہ تر ان بچوں کیلئے استعمال کی جاتی ہےجو مو کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے سکول چھوڑ دیں، یو این آئی سی ایف نے 1980 میں اس کی اس طرح تعریف کی کہ وہ بچے جو کسی کلاس میں انرول ہوں مگر اپنا تعلیمی سال مکمل کیے بغیر سکول جانا چھوڑ دیں، وہ بچے ڈراپ آؤٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔

(جاری ہے)


ڈراپ آؤٹ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی ابتدا ہوتی تو پرائمری سے ہے مگر یہ اعلی سطحی تعلیم کو متاثر کرنے میں کسی طور بھی کم نہیں، یہ مسئلہ جہاں ملک میں ناخواندگی کی شرح بڑھانے میں اضافہ کرتا ہے وہاں دوسری طرف سماجی و معاشی اور سیاسی نشونما کے راستے میں بھی بڑی رکاوٹ ہے، 2018 کی یو ایم آئی ایس او کے تعلیمی جائزوں پر مشتمل رپورٹ کے مطابق 2017 میں 262 ملین بچے اور یوتھ تعلیمی سال مکمل کیے بغیر سکول چھوڑ گئے۔

پاکستان چونکہ ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیے یہاں وسائل کی کمی کی وجہ سے ناخواندگی کی شرح زیادہ ہے، حکومت کی جان بسے سہولیات فراہم کرنے کے باوجود بھی اضافہ نہیں کیا جا سکا۔ حکومت پاکستان اور دوسری بہت سی این جی اوز خواندگی کی شرح کو بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں مگر اس کے باوجود دوسرے ممالک کے مقابلے تعلیمی شرح بہت کم ہے۔
سال 2010 سے 2011 میں ڈراپ آؤٹ ریٹ ساٹھ فیصد رہا جب کہ 2008 سے 2009 میں پچاس فیصد رہا، اسی طرح دیہاتوں کی نسبت شہروں میں یہ شرح زیادہ پائی گئی اور لڑکیوں کی نسبت لڑکوں نے پرائمری کی تعلیم کو مکمل کیے بغیر درمیان میں ہی چھوڑ دیا. 2018 کی یو این آئی سی سی او کی رپورٹ کےمطابق پاکستان نائجیریا کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں طلباء تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

2017 میں این آئی ایم آئی ایس کی رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2017 تک ڈراپ آوٹ ریٹ میں کافی کمی آئی ہے، ڈراپ آؤٹ کی وجوہات تعلیمی اداروں سے منسلک نہیں بلکہ اس کا تعلق سماجی و معاشی مسائل سے ہے۔ سال 2019 کے سروے کے دوران بچوں کے انٹرویو سے کچھ وجوہات سامنے آئی ہیں جن میں بڑا خاندان، جنسی عدم مساوات، استاد اور طلبہ کا تعلق، غیر تعلیم یافتہ والدین، جلدی شادیاں، تدریسی مواد اور جسمانی سزا بڑے مسائل ہیں۔


ان مسائل کا سامنا سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء کو زیادہ تر کرنا پڑتا ہے، حکومت اور سوشل ورکرز کے ذریعے مسائل تو واضح کئے گئے ہیں مگر اب ضرورت اس چیز کی ہے کہ وزیر تعلیم کی توجہ مسائل کے حل کی طرف مبذول کروائی جائے۔ دنیا بھر میں ڈراپ آؤٹ پر قابو پانے کے لیے بہت سے سٹڈیز کی گئی ہیں ان میں سے اپنے ملک کے معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر عمل میں لائی جا سکتی ہیں، سکول کے اوقات میں نرمی، فیل ہونے کی تصور کو ختم کیا جائے، ٹیچنگ اور لرننگ کے معیار کو بہتر کیا جائے، طلبہ کی مالی امداد کی جائے۔

سماجی حوصلہ افزائی کی جائے، ابتداء میں ہی طلبہ کے مسائل کو حل کیا جائے. رواں سال بھی پرائمری سکولوں کے حالات کچھ خاص بہتر نہیں اور ثانوی سطح پر حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم اور تعلیمی اداروں کو بہتر کیا جائے، حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ملکی معاشی حالات اچانک کنٹرول میں نہیں آ سکتے اس کے لئے دور رس اثرات کے حامل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ تعلیمی حالات بہتر کرنا آپ کے ہاتھوں میں ہے، معاشی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے، بس اس کے لیے کچھ محنت اور جامع لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :