غربت اور جرائم‎

پیر 21 ستمبر 2020

Bilal Shabir

بلال شبیر

پاکستان میں ہر روزِ کسی نہ کسی گھر میں قیامت کا منظر ہوتا ہے. کسی کی بیٹی کی عزت محفوظ نہیں رہتی کسی کی بہن کی اور اب تو بیوہ عورتوں کی عزت بھی محفوظ نہیں.. موٹروے کا واقعہ ہوں یا شیخوپورہ کا واقعہ سب ہی قابل مذمت ہیں. آجکل ہر جگہ آک ہی بات کی جا رہی ہے کہ سرعام پھانسی کی سزا دی جائے. بالکل درست بات ہے کہ اس طرح ہی ہونا چاہیے.

پر اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ ہوتے کون ہے کوئی بھی ماں کے پیٹ سے یہ نہیں سیکھ کر آتا. اور نا ہی کوئی ماں اپنے بچوں کی تربیت اسی کرتی ہیں
معاشرہ حکومت ریاست سب لوگ اس کے قصور وار ہیں..

(جاری ہے)

آک شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پنجاب کے کسی گاؤں میں رہتا ہوں جہاں نہ بجلی نہ پانی نہ گیس نہ اسکول نہ ہی کوئی معاشی سرگرمی. باپ کے پاس اپنے بچے کو پڑھانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے اور جب وہ چار پانچ سال کے ہوتے ہیں تو ان کو کسی موٹر سائیکل کی ورکشاپ پر بھج دیتے یا بھیگ منگواتے ہے.

یہ انکی بھی مجبوری ہے کیوں کہ ریاست اور حکومت نے کبھی غریب آدمی کا نہیں سوچا نہ ان کو کوئی روزگار دیا گیا اور نہ ہی تعلیم نہ ان کو دنیا کا پتہ نہ اسلام کا اور جب معاشرہ جب اس طرح کے لوگوں کی مدد نہیں کرتا بات کرنا بھی لوگ پسند نہیں کرتے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں. جب ان کو کوئی کام نہیں ملتا تو وہ مجبوراً چوری کرتے ہیں اور اسکو اپنا پیشہ بناء لیتے ہیں اور یہاں سے ہی وہ مزید غلط کام کی طرف جاتے ہیں اچھائی کی طرف کسی کو لانا بہت مشکل ہے اور برائی کو سکھایا نہیں جاتا معاشرے سے سیکھتا ہیں..

ویسے تو ہم سب مسلمان بنتے ہیں پر ارکان اسلام بھی ادا نہیں کرتے زکوۃ اور خمس اگر سب مسلمان دے اور حقداروں تک سہی طریقے سے یہ پہنچ جائے تو معاشرے سے زیادہ نہ سہی پر پچاس فصد جرائم کم ہو جائینگے. اِک بچے کو مجرم بنانے میں ہم سب شامل ہیں.. آجکل ہماری بہنوں نے احتجاج کرنا شروع کیا. احتجاج سب کا حق ہے اور اس سے کسی کو روکا بھی نہیں جا سکتا.

جو لوگ اسلامی حق مانگنے آتے ہیں کیا وہ اسلام کو واقعہ میں مانتے ہیں عورت کو ہر طرح کی آزادی ہونی چاہیے اور مل بھی رہی ہے. پر یہ کس طرح کا احتجاج ہے جس میں بات تو اسلام کی کرے اور آپکے لباس کی وجہ سے آپکا جسم نظر آئے. کُچھ عرصہ قبل میرا جسم میری مرضی کا سلوگن چلا تھا جب اس طرح کے لوگ آجائیں تو پھر آپکو ہر طرح کے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے کام ہمارے یورپ والے اور بعد میں کوئی حادثہ ہو جانے کے بعد انصاف سعودی عرب والا چاہیے.ان مجرموں کو جلد از جلد سخت ترین سزا ملنی چاہیئے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کو اسلام کے مطابق پردے میں رہنے کا بھی پابند بنایا جائے جب فحاشی اور فحاشی لباس سے جانِ چھوٹ جائے گی اور ریاست اور اس کے ادارے ٹھیک طرح سے اپنی تمام تر ذمہ داری ادا کرے گے.

اس دن معاشرے سے تمام تر برائی ختم ہو جائے گی...
نوٹ(اسکا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :