اقبال اور کتاب

پیر 30 نومبر 2020

Danish Raza Qureshi

دانش رضا قریشی

کی محمد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ الہ وَسَلَّم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال کے بہت سے اشعار آپ نے  سنیں
ہونگیں پڑھے ہونگے لیکن اس شعر کی تاثیر  کچھ الگ ہی ہے علامہ اقبال نے اپنے شعر میں میں جہاں پیدا ہونے سے پہلے اشارہ کیا ہے جب اللہ تعالی نے دونوں جہاں کو پیدا کرنے سے پہلے جنت کے نزدیک یہ کلمہ لکھا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس وقت اللہ تعالی نے دونوں جہاں کو پیدا کرنے سے پہلے لوح و قلم کو پیدا فرمایا لوح قلم نے سب سے پہلے لکھا لا الہ الا اللہ اور پھر محبت کے ساتھ لکھا محمد رسول اللہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا گیا اور دنیا میں آکر کئ سال روتے رہے پھر حضرت آدم علیہ السلام کی سوچ اور فکر میں یہ بات آئی جنت میں،  میں نے ایک کلمہ دیکھا تھا،  جو لوح و قلم سے لکھا گیا تھا ۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ،اللہ تعالی ایک ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور بندے ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام نے اس کلمے کا واسطہ دے کر حضرت آدم علیہ السلام کو معاف فرمایا تھا اورحکم فرمایا تھا کہ جوشخص اچھے اعمال کرے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا جو برے اعمال کرے گا اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا حضرت خیال کیجئے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کس حد تک پیچیدہ اوا دوا اندیش ہے کہ جب دنیا جہان ہی نہیں بنے تھے اس سے پہلے وہ کل موجود تھے لوح قلم کی موجودگی سے کافی نہیں تھی بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حد تک بہتر سے بہتر بنایا گیا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے اور وسیلے سے حضرت آدم علیہ السلام نے دعا مانگی اور ان کی دعا قبول ہوگی ۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ جو سب سے بہترین چیز تھی وہ لوح و قلم تھی اور لوح قلم کی طاقت تھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کرو گے تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقت والی چیز تمہاری یعنی کہ لوح بھی تمہاری ہے قلم بھی تمہاری ہے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے میں تو اپنی کتابوں میں یہاں تک پڑھا کے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتا تو حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ پر سکتہ طاری ہو جاتا بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے بہت سے لوگ تھے جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھتے تھے کہ آپ کیوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر نہیں ہوتے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان معتبر ہونے کے باوجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کبھی پیش نہ ہوئے کہتے تھے کہ مجھ میں ہمت ہی نہیں ہے کہ میں گناہگار ہوں سیاہ کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کر سکوں حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جب میٹرک کا امتحان پاس کیا تو ان کے والد محترم نے ان کو تحفہ کے طور پر کتاب دی عام کتاب نہیں بلکہ کتب الکتاب یعنی کتابوں کی کتاب کتابوں کی سردار کتاب قرآن مجید تھیا جس کا رنگ جس کی خوشبو جس کے الفاظ ہم علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں   اسی کی تشریحات کو پڑتی اس کی تفاسیر رات کو پڑھ کے پھر اس کو شاعری میں ڈھلتے دنیا میں بہت سے شعراء گزرے ہیں  بہت سے  کتاب والے گزرے ہیں جیسا روحانی استاد وہ جلال الدین رومی کو رحمۃ اللہ علیہ کو مانتے تھے اور کسی کو نہیں مانتے تھے وہ مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا روحانی استاد سمجھتے تھے کتاب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی محبت اور عقیدت کے ایک شعر سے واضح ہے دیار غیر میں پہنچ کر بھی انہیں اپنے آباؤاجداد کی کتابوں کا خیال رہا
یورپ کے سفر سے واپسی کے بعد علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر بڑا مشہور و معروف ہے
اوروہ جو علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شعر میں فرماتے ہیں کہ جب دنیا بنی تھی اس وقت بھی قلم اور کتاب موجود تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر لکھنے کے بعد قلم اور کتاب کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ تا قیامت تک قائم و دائم رہے گی اسی اثنا میں وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد کا اثاثہ جو ہمارے برصغیر میں مسلمانوں کا ساتھ تھا وہ دیار غیر میں غیر مسلموں کے کتب خانوں کی زینت ہے ایسی زینت ہے کہ ہم لاکھوں کوشیش کریں پھر بھی واپس نہیں لا سکتے اور اسی اثناء یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم جب ان کتابوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے دل تیس ٹکرے ہو جاتا ہے انڈیا آفس لائبریری لندن ،لائبریری آف کانگریس امریکہ جرمنی کے کتب خانے ،اسپین کے کتب خانے وہ مقامات ہیں جہاں پر مسلمانوں کی ہاتھ سے لکھی ہوئی نایاب نادر کتابیں موجود ہے جس کی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس وقت نشاندہی کی تھی اقبال کو اقبال بننے میں کتابوں کا بہت عمل دخل رہا جوآج ان کے اشعار میں بھی واضح ہے  ہے جس کی وجہ سے  آج علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں آپ نے فارسی میں بھی بہت سی تصانیف کی تھی اس کی بنا پر موجودہ ایران والے ان کو اپنا قومی شاعر مانتے ہیں اردو میں کتاب لکھنے کی وجہ سے اہل اردو انہیں اپنا استاد مانتے ہیں شاعر مشرق کا خطاب دیا گیا ہے اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ تھا ہمیں جب بھی علامہ اقبال رحمۃ اللہ اللہ اللہ سے بات کرنی ہو تو ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھ کر ہم ان سے بات کر سکتے ہیں ان سے اپنے دلی حالات کا ذکر کر سکتے ہیں اپنے مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں آج بھی دور حاضر میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو بہترین کلمات سے نوازتے ہیں بلکہ انہیں اپنا روحانی استاد مانتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جب بھی ذکر ہوتا تو میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ آپ دید ہو جاتے یہ اس بات کی گواہی کے ہے کہ آپ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم لیکن ہمیں افسوس ہے کہ آج کا مسلمان کتابوں سے قرآن پاک سے کوسوں دور ہے کی وجہ سے ذلت رسوائی ہمارا مقدر بن چکی یہ قلم اور کتاب کی طاقت تھی کے بارے میں علامہ اقبال  نشاندہی بھی کر چکے تھے ان کےشعر اور الفاظ سے یہ بات باور کروانے کی مسلمانوں کو کوشش کر چکے تھے کہ جب تک مسلمانوں نے اپنے کتب خانوں پر اور کتاب سے دوستی رکھی اس وقت تک مسلمان پوری دنیا میں چھائے رہے انگریز  ہمارے آباء و اجداد کا اثاثہ لوٹ کر اسے اپنی لائبریری کی زینت بنا کر اپنے سچ میں شامل کرکے آج دیار غیر میں بیٹھے ہوئے غیر مسلم ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں اقبال کا ایک  مشہور شعر بھی اسی حوالے سے ہے
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر،ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
آج بھی اگر مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو فالو کرنا ہوگا علامہ اقبال جیسا سچا اور پکا کتاب دار بننا ہوگا اپنے گھر میں اپنے محلے میں اپنے گاؤں میں ہر جگہ پر قلم اور کتاب کی عزت کی بات کرنی ہوگی کتابیں پڑھنی ہوگی بلکہ کتابیں پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ موجودہ دور میں ہم جس مشکلات کا شکار ہیں وہاں سے نکل سکے ۔


جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
 ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :