
جمہوریت میں جمہور کا کردار اور خود احتسابی
ہفتہ 20 ستمبر 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہر فرد اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اسے سنوارنے کے لئے نکل پڑئے تو ہمیں کسی حکمران یا حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو اب یہی دیکھ لیں یہ جو ہر محلے کی نکڑ ،چوک چوراہوں پر نوجوان لڑکوں کا ہجوم ہوتا ہے کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ہماری نوجوان نسل ،بیکار ہوتی جارہی ہے،، نہ ان کے پاس کام کاج ہے اور نہ ہی یہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں ،،،ورنہ ان میں سے کتنے نوجوان پڑھے لکھے ہوں گے ،،،کیا یہ نوجوان اپنے ارد گرد ،گلی محلوں ،بازاروں میں ان بچوں کو زیور تعلم سے آرستہ نہیں کر سکتے جو وسائل کی کمی اور غربت کی بنا پر تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔۔ اگر یہ ،،،نکڑ گروپ“ اپنے ”قیمتی“ وقت میں سے تھوڑا سا فضول وقت ان بچوں کو تعلیم دلانے میں خرچ کر سکیں تو یقین کیجیے جہالت اس ملک سے دم دبا کر بھاگ سکتی ہے اور مثبت انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی،،،پھر ہمیں کسی بھرے پیٹ والے کے انقلاب یا تبدیلی کی ضروت ہی نہیں رہے گی۔
انقلاب لانے کے لئے کسی ”خونخوار یا بڑھک باز مذہبی و سیاسی“ لیڈر یا مبلغ کی ضروت نہیں۔کیونکہ ایک پر امن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انساں ہی کافی ہیں جو انسان ،انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں، پاکستان میں ایسا انقلاب ایک سلجھی ہوئی سول سوسائٹی لا سکتی ہے۔۔ ہمیں ایسے گروپوں اور گروہوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل کرنے کے لیے اپنا تھوڑا سا وقت نکال سکیں۔۔کسی علاقے میں اگر کسی مین ہول پر ڈھکن نہیں ہے،،،بجلی کی تاریں ٹوٹی ہوئی ہیں،،کوئی سڑک خراب ہے، کہیں پانی کھڑے ہونے کی بناپر تعفن پھیل رہا ہے،،گلیاں گندی اور کوڑئے سے اٹی پڑیں ہیں۔ ان کاموں کو کرنے کے لئے کسی کی اجازت اور واعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔ بس انقلاب یا تبدیلی کے جذبے کی ضرورت ہے ،،ان کاموں سے انقلاب کی مظبوط بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔۔
پاکستان میں اتنے زیادہ منظم گروہ ہیں سب مل کر اس ملک میں سے پلاسٹک بیگ جو آلودگی کی بنیادی وجہ ہیں کے خاتمے کا تہیہ کر کے ملک بھر میں صفائی مہم پر لگ جائیں تو کیا شہروں میں سیلابی پانی سے نقصان ہو سکتا ہے اور بیماریاں پھیل سکتی ہیں؟ بات صرف انسانی بھلائی کے کاموں میں خود کو شامل کرنے کی ہے ،ہم ہر کام حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اپنے گھر کا کوڑا حکومت کی جانب سے جگہ جگہ رکھے گئے کوڑئے دانوں میں نہیں ڈالتے اور بات کرتے ہیں تبدیلی یا انقلاب کی، انقلاب سوچ میں تبدیلی سے آتا ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں۔
پوری دنیا میں رائج اصولوں میں یہ بات سر فہرست ہے کہ ملکی قوانین کی پابندی ہر شہری پر نہ صرف لازم ہے بلکہ اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو پورا معاشرہ خلاف ورزی کرنے والے کے اس عمل کو برا سمجھتا ہے ریاست کے سربراہ سے لیکر عام آدمی تک کو ملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں ہوتی،،قانون کی حکمرانی دیکھنی ہو تو ان ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جبکہ ،مسلم ممالک میں قانون کی پاسداری کرنے کے لئے بھی فتووں کا سہارا لیا جاتا ہے۔۔۔ پولیو کے قطرے پلانے ہوں تو فتوئے ،یہاں تک کے سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے ٹریفک کے سگنلز کی خلاف ورزی کرنے والے ڈرائیوروں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان ڈرائیوروں کی یہ حرکت گناہ کبیرہ میں داخل ہے اور شرعی طور پر حرام ہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم قوم کیسے بن سکتے ہیں؟۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.