
بچہ ہو یا بچی عورت ہی ظلم کا شکار کیوں؟
جمعرات 23 اکتوبر 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
دنیا کی ترقی کی بات کریں تو آج انسان مریخ تک جا پہنچا ہے وقت کی طنابیں کھینچتا ہوا یہ انسان اپنی افتاد طبع پر قابو نہیں پاسکا اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسانیت کا قتل ہورہا ہے کہیں معاشرتی رسم و رواج کے نام پر، تو کہیں صنفی امتیاز کے نام پر ، جہاں میڈیکل سائنس نے انسانی دکھوں کا علاج دریافت کیا ہے اس کے لئے آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس کی ایجادات سے مفاد پرست عناسر فائدہ اٹھاتے بھی پائے جاتے ہیں بھارت میں تو صورت حال بہت ہی ابتر ہے یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں صنفی امتیاز کے منظم منصوبے کے تحت 5 کروڑ لڑکیاں پیدائش سے پہلے یا بعد میں قتل کر دی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی اس رپورٹ میں ان خوفناک اعداد و شمار کا انکشاف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت میں بچیوں کو پیدائش سے قبل یا بعد میں قتل کرنے کا معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ بھارت میں رائج جہیز کا نظام ہے جو غریب خاندان کے بس کی بات نہیں، اور لڑکی کی پیدائش مصیبتوں اور پریشانیوں کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ عورت مخالف یہ صورتحال صرف کسی ایک جگہ محدود نہیں بلکہ ثقافتی عقائد اور معاشرتی روایات کی بنیاد پر ہر طبقہ میں یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ الٹرا ساوٴنڈ کے ذریعے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اسکی جنس معلوم کر لی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں اسے دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت میں ذات برادری کی تقسیم اور لڑکیوں کے لیے جہیز اس کی خاص وجہ ہے۔ یونیسیف نے اسے سنگین صورتحال قرار دیا ہے۔ بھارت میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ۹۳۷ رہ گئی ہے۔ اس صورتحال پر بھارت میں خاصا واویلا تو مچایا جاتا ہے۔ لیکن اب تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوسکے۔ کچھ عرصہ پہلے بچوں کے لئے کام کرنے والی ایک خیراتی تنظیم کی جانب سے دائر کردہ ایک مقدمہ میں عدالت میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ ایسے اسپتالوں اور شفا خانوں کو سزا دی جائے۔ جس پر بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پیدائش سے قبل جنس کا تعین کرنے کے لئے رحم مادر کا سکین کرنے والے شفا خانوں کو سزائیں دی جائیں اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے جو لڑکیوں کے اسقاط کو روکنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
گو کہ بھارتی حکومت جہیز کے رواج کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس رواج کو پہلے ہی خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔ پیدائش سے پہلے یہ جاننے کے لئے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی اکثر جوڑے الٹراساوٴنڈ کرواتے ہیں۔ تاہم بھارتی حکومت نے دس سال قبل اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن حالیہ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس قانون پر کم ہی عمل ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس حکم میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں دلائیں۔ اس سے قبل عدالت نے حکم دیا تھا کہ مختلف شفا خانوں میں استعمال ہونے والی الٹرا ساوٴنڈ مشینوں کی نگرانی کی جائے اور ان مشینوں کو ضبط کر لیا جائے جن کے ذریعے پیدائش سے قبل بچے کی جنس کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
جبکہ پاکستان میں قبل از پیدائش کتنے بچوں کی ہلاکت ہو جاتی ہے اس ضمن میں ہمارے ہاں ابھی کوئی زیادہ کام ہوتا نظر نہیں آرہا مگر قبل از پیداش بچے کی جنس معلوم کرنے کا رحجان بہت ہو چکا ہے جس کا نقصان بہر حال خواتین کو ہو رہا اس ضمن میں حکومت کو اس جانب توجہ دینی ہو گی اور معاشرے میں اس احساس کو جاگزین کرنا ہو گا کہ ”بچہ ہو گا یا بچی“ اس میں کسی انسان مرد یا عورت کا عمل دخل نہیں یہ قدرت کا امر ہے جسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے ایک انسانی جان کو پوری انسانیت کی جان قرار دے کر قدرت نے انسانوں ،معاشروں اور حکومتوں پر یہ زمہ داری عائد کر دی ہے کہ وہ کسی بھی انسان کی جان کو ناحق ضائع نہ ہونے دیں اور نہ قتل کریں،بچے ہو گا یا بچی پر مبنی شائع ہونے والے اشتہارات اور ایسے کلینک جو صنفی امتیاز کو ہوا دئے رہے ہیں کو قانوں کے ضابطے میں لانا ضروری ہے اور ان پر پابندی ہونی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.