
سانحہ پشاور، خوف کو حوصلے میں بدلا جائے
پیر 22 دسمبر 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
اب اس لڑائی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے ۔اب ابھی اگر ایسا نہ ہوا تو اس ملک کے در و دیوار خون سے رنگے نظر آئیں گے لیکن یہاں حکومت اور فوج کو اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا کہ دہشت گرد صرف وہی نہیں ہیں جو نہتے شہریوں پر حملے کرتے ہیں بلکہ دہشت گرد وہ بھی ہیں جو شہریوں کے درمیان رہ کر دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں ۔ پوری قوم ،حکومت اور فوج کو وقت اب اس مقام پر لے آیا کہ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں پر امن ،باوقار طریقے سے زندہ رہنا ہے یا یونہی خوف و دہشت کی فضا میں سہم کر زندگی گزارنی ہے بچے کسی بھی قوم اک اثاثہ اور مستقبل ہوا کرتے ہیں اور جو انہیں مارے وہ حوانیت اور درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور درندوں کے خلاف سب کو ہی متحد ہونا پڑتا ہے تب ان کے شر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔۔دہشت گردی کا عفریت جب تک ختم نہیں ہو گا ہم سکون سے رہ سکین اور اور نہ کوئی کام کر سکیں گے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم یکسو ہو کر پاک فوج کے ساتھ شانے کے ساتھ شانہ ملاتے ہوئے اس ناسور کے خاتمے کے لئے کمر کس لے ,جبکہ حکومت کو اس سو چ کے خاتمے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جو نفرت پھیلانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتی ہے ہر قسم کے ایسے لٹریچر پر پابندی ہونی چاہیے جس میں نفرت ،تعصب یا فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہو ۔ جبکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے تمام گرہووں جتھوں، جماعتوں اور افراد کا کڑا محاسبہ کے بنا اور قانون کی عملداری کو یقینی بنائے بنا دہشت گردی جیسے ناسور پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ہر شکل کو ختم کئے بنا کوئی چارہ کار نہیں ریاست کو اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لئے ثابت کرنا پڑئے گا کہ اس ملک پر کسی گروہ ، جتھے یا انتہا پسند جماعت کی کوئی اجارہ داری نہیں حکومت کو اپنی رٹ برقرا رکھنے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ہر وہ اقدام اٹھانا ہو گا جس سے پاکستانیوں کی زندگیاں محفوظ ہو سکیں۔ حکومت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانے کی جسارت کی جارہی ہے کہ سیکورٹی پر مامور ادارئے خصوصا ً پولیس جو انصاف کی بنیاد ہے کی زہنی تربیت بھی بہت ضروری ہے ریاستی اداروں کا تمام ترتعصبات سے پاک ہونا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے ناگزیر ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ کی جانب سے سکولوں کی سکیورٹی کے حوالے سے بے جا پابندیوں سے تعلیمی نقصان کا خدشہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی اداروں کو چاہیے وہ اپنے سیکورٹی معیار کو بہتر کرنے کے ساتھ قوم کا حوصلہ بلند کریں نہ کہ خوف کی فضا میں اضافہ پیدا کرنے والے اقدامات اٹھائیں جیسا کہ تعلیمی اداروں کو قلعے بنانے کے احکامات جاری کیے جارہے ہیں جو خوف کی فضا میں اضافے کا سبب ہی بنیں گے ۔ اس سے بہتر تو یہ ہی کہ تمام تعلیمی ادروں میں حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے طلباء میں شعور اجاگر کیا جائے تا کہ ان میں ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کا نہ صرف حوصلہ پیدا ہو بلکہ وہ نا مسائد حالات کا مقابلہ بھی کر سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.