
فضائی آلودگی صحت کی دشمن
بدھ 6 جنوری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
جس طرح دنیا کے دیگر بڑئے شہر فضائی آلودگی کا شکار ہیں اسی طرح پاکستان بھی اس سے شدید متاثر ہے پاکستان کے شہری علاقوں میں ہوائی آلودگی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس سے انسانی صحت سمیت معیشت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق آلودگی دنیا میں مرنے والے ہر آٹھویں فرد کی موت کی وجہ ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں صرف سنہ 2012 میں 70 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ان ہلاکتوں میں سے بیشتر جنوبی اور مشرقی ایشیا کے غریب اور متوسط درجے کے ممالک میں ہوئیں اور نصف سے زیادہ اموات لکڑی اور کوئلے کے چولہوں سے اٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے ہوئیں۔تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ مکانات کے اندر کھانا پکانے کے عمل کے دوران اٹھنے والے دھویں سے خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اگر صرف کھانا پکانے کے لیے محفوظ چولہے ہی فراہم کر دیے جائیں تو دنیا میں لاکھوں افراد کی جانیں بچ سکتی ہیں۔دنیا میں 2012 میں 43 لاکھ اموات گھروں کے اندر کی فضا کی آلودگی خصوصاً ایشیا میں لکڑیاں جلا کر یا کوئلوں پر کھانا پکانے کے دوران اٹھنے والے دھویں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ بیرونی فضا میں آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے لگ بھگ رہی جن میں سے 90 فیصد کے قریب ترقی پذیر ممالک میں تھے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ بیرونی فضائی آلودگی چین اور بھارت جیسے ممالک کے لیے بڑا مسئلہ ہے جہاں تیزی سے صنعت کاری ہو رہی ہے۔کنگز کالج لندن کے ماحولیاتی تحقیقاتی گروپ کے ڈائریکٹر فرینک کیلی کا کہنا ہے کہ ’ہم سب کو سانس لینا ہوتا ہے اس لیے ہم اس آلودگی سے بچ نہیں سکتے۔‘ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں فضائی آلودگی دل کی سوجن کی وجہ بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ بیس سال کے دوران گاڑیوں کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ چھ لاکھ سے زائد ہوگئی ہے بڑھتی ہوئی آلودگی کو کم کرنے کے لئے نجی گاڑیوں کی سرکولیشن کو محدود کیا جائے، شہری منصوبہ بندی اور زمینوں کے استعمال میں گاڑیوں کے لیے لینز قائم کی جائیں اور ٹریفک خامیوں پر قابو پایا جائے۔ٹرانسپورٹ سیکٹر کو موسمیاتی پالیسیوں میں شامل کیا جائے ، جبکہ گاڑیوں اور ٹرانسپورٹ سسٹم کی اہلیت کو بہتر کیا جائے، شاہراوں پر ہجوم کو کم کرنے کی پالیسیاں تیار کی جائیں، ہائی ویز اور نان موٹرائزڈ ٹرانسپورٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پاکستان کے ہوائی آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے مانیٹرنگ کو موثر کیا جائے، ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھایا جائے، ریگولیٹری فریم ورک کو فروغ دیا جائے اور دیگر خلاء پر کئے جائیں۔
جیسا کہ بھارتی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کی ریکارڈ سطح پر قابو پانے کے ایک غیر معمولی جامع پروگرام کا آغاز یکم کیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کے تحت نئی دہلی کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد میں واضح کمی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یکم جنوری تا 15 جنوری نئی دہلی میں اتوار کے علاوہ باقی تمام دنوں میں آٹھ بجے صْبح سے آٹھ بجے شام تک گاڑیاں سڑکوں پر نہیں نکلیں گی۔جمعہ یکم جنوری کو 17 ملین کی آبادی والے شہر نئی دہلی کی سڑکوں پر معمول کے برعکس بہت کم ٹریفک دیکھنے میں آیا۔ اس کی وجہ اس نئے قانون کا اطلاق ہے۔ نئی دہلی حکام نے 3000 پرائیویٹ بسیں کرائے پر لے کر اس شہر میں عوام کو گاڑی کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح فرانس اور دیگر ممالک بھی ایسا ہیطر عملاختیار کر رہے ہیں پاکستان کو بھی ان ممالک کی طرح آلودگی پر قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.