سمندرکا عالمی دن اس سال انٹرنیٹ پر منایا جائے گا

اتوار 7 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندرہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ،اس کی اور انسان کی دوستی ابتدا سے ہے۔اس قدر اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود صحت عامہ کے خطرات کے مسائل کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں سمندروں کے بارے میںکبھی کچھ نہیں نہیں آتا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سمندروں کی صحت کا ہماری صحت سے گہرا تعلق ہے۔

آپ یہ جان کر حیرت زدہ ہونگے کہ ان موجودہ دنوں میں جبکہ دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے،اس وائرس کی تشخیص اور علاج کی نئی راہیں متعین کرنے میں سمندر بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق سمندر کی گہرائیوں میں دریافت ہونے والی زندہ مخلوق،حیاتیات، کوویڈ۔19 وائرس کا تیزی سے پتہ لگانے کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں۔سمندر انسان کو نت نئے تجربات اور انسانیت کی بھلائی کےلئے بہت سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں اسی لئے بہتر مستقبل کے لئے سمندروں کی حفاظت کرناضروری ہے۔

انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے سمندروںکا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
سمندروں کاعالمی دن 1992 میں ریوڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہرسال سمندر کے تحفظ کا شعوراجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت ، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کم کرنا ہے۔

سمندر کے عالمی دن کے موقع پر عموما دنیا بھر کے ساحلوں کی صفائی، تعلیمی پروگرام، تصاویرسازی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذا کے ایونٹس سجانے سمیت دیگر تقاریب منائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانوں میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے لیکن اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے اوقیانوس گلوبل کی شراکت میں تیار کردہ ایک پروگرام میں ، سمندروں کا عالمی دن انٹرنیٹ کے ذریعے منایا جائے گا۔

موجوہ سال کا تھیم ہے”پائیدار سمندر کے لئے جدت“ َاس تھیم کے مطابق سمندر ہمارا مستقبل ہیں جن کو بچانے کے لئے نئے طریقے،نئے راستے اختیار کرنا ہوں گے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔

کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاءکا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔


اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے جبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیرٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :