
آزادی صحافت کا دن ،کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
بدھ 5 مئی 2021

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
مزدوروں ہی کی طرح ، آج ہم آزادی صحافت کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ اس پہلو سے بھی جب اپنے ملک کے حالات پر نظر پڑتی ہے تو افسوس ہی ہوتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پستی اور زوال کی طرف جا رہے ہیں۔ یقینا عالمی یوم مزدور ہی کی طرح کسی نہ کسی طور ہم یہ دن بھی ضرور منائیں گے۔ وزراء کے بیانات جاری ہوں گے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ صحافی معاشرے کا انتہائی محترم طبقہ ہیں۔ ان کے حقوق کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ میڈیا کی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اس ستون کو ہم مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا عمل جاری رکھیں گے۔ یہ اور اس طرح کے خوش کن بیانات جاری ہوں گے۔ شاید کچھ اور بھی ہوں جس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں۔ لیکن کیا واقعی صحافت یا صحافیوں کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی آجائے گی؟ کیا واقعی صحافی کو یہ آزادی مل جائے گی کہ وہ جسے سچ سمجھتا ہے، پوری قوت کے ساتھ اس کا اظہار کرلے، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا؟ کیا واقعی جمہوری ممالک کی طرح یہاں رائے کی آزادی ہو گی چاہے وہ رائے کسی اور کو کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے؟ کیا اخبار وہ سب کچھ چھاپ سکیں گے جو وہ چھاپنا چاہتے ہیں؟ کیا ٹی وی چینلوں پر وہ بات کہی جا سکے گی جو ہے تو سچ ،لیکن اسے کہنے کی اجازت نہیں۔ کیا یہاں تحمل و برداشت کا وہ کلچر پیدا ہو سکے گا جو جمہوریت ہی نہیں، صحافت کی بھی روح ہے۔ یہ تو جانے دیجئے۔ کیا صحافیوں کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے گا کہ ان کی زندگی کو کسی اندھی گولی سے کوئی خطرہ نہیں؟ کیا صحافیوں کے اہل خانہ کو یہ خوف نہیں رہے گا کہ نہ جانے صحافت کے پیشے سے وابستہ ان کا پیارا گھر آجائے گا یا غائب ہو جائے گا؟ یقین جانیے پاکستان میں کسی ایک فرد کو بھی یہ خوش فہمی نہیں ہوگی کہ آنے والے دن، جانے والے دنوں سے بہتر ہوں گے اور صحافت کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے معروف ادارے " فریڈم نیٹ ورک" کی رپورٹ برائے2019-20 منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو قتل کرنے، ان پر تشدد کرنے، انہیں ہراساں کرنے، انہیں اغوا کرنے، انہیں گرفتار کر کے زیر حراست رکھنے، انہیں دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کے کتنے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 91 واقعات پیش آئے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت کس نوع کے مسائل کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر ماہ کم و بیش سات واقعات ایسے پیش آئے جن میں آزادی صحافت پر کسی نہ کسی طرح حملہ ہوا۔ یہ رپورٹ کہتی ہے " شدید سنسر شپ، صحافیوں کے قتل، دھمکیوں، دباو، ہراساں کرنے جیسے واقعات کے باعث پاکستانی میڈیا کے گرد شکنجہ سخت ہو رہا ہے"۔رپورٹ بتاتی ہے کہ زیر نظر ایک سال میں سات صحافی قتل کر دئیے گئے۔ دو اغوا کئے گئے۔ نو کو گرفتار کر کے زیر حراست رکھا گیا۔دس صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ " پاکستان میں یہ نہایت ہی افسوسناک انکشاف ہوا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا دارکحکومت اسلام آباد، صحافیوں کے لئے سب سے غیر محفوظ مقام ہے جہاں 34 فیصد مذکورہ بالاپر تشدد واقعات پیش آئے۔ سندھ 27 فیصد کیساتھ دوسرے، پنجاب 22 فیصد کیساتھ تیسرے، خیبر پختونخواہ 14 فیصد کیساتھ چوتھے جبکہ بلوچستان 3 فیصد کیساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ 69 فیصد واقعات ٹی۔وی صحافیوں کے ساتھ پیش آئے کیوں کہ انہیں پہچاننا آسان تھا۔
"رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز" صحافت اور صحافیوں کے حالات پر نظر رکھنے والا نامور عالمی ادارہ ہے۔ گزشتہ ماہ اپریل کے اواخر میں اس نے آزادی صحافت کے حوالے سے درجہ بندی (ranking) جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر کے 180 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان کا نمبر 145 واں ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 کے بعد سے پاکستانی صحافت شدید دباو میں چلی آرہی ہے اور یہ دباو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
سو ہمارے لئے صحافت کا دن منانا بھی رونا دھونا او ر سیاپا کرنا ہی ہے۔ لیکن جی چاہتا ہے کہ ان مشکل تریں حالات میں بھی ، جب سچ کہنے کا مطلب اپنی جان گنوانا بھی ہو سکتا ہے، پاکستان ایسے بہادر صحافیوں سے خالی نہیں جو واقعی اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں اور سچ بات کہہ رہے ہیں۔ آزادی صحافت کی راہ میں جن کا خون بہا وہ بھی ہمارے ہیرو ہیں اور جو تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جس قدر بھی ممکن ہے، آزادی صحافت کا قرض ادار کر رہے ہیں، وہ بھی یقینا ہمارے ہیرو ہیں۔ ان سب کو سلام۔ آئی ۔اے۔رحمان مرحوم کہا کرتے تھے کہ مایوس نہیں ہونا، جتنی بات بھی کہی جا سکے کہتے رہو، جتنی بھی لکھی جا سکے، لکھتے رہو۔ ہم نہ سہی کوئی تو آئے گا جس کا قلم آزادی سے حق لکھ سکے گا اور اسکی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.